مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ بیع سلم کا بیان ۔ ۔ حدیث 112

شے مرہون راہن کی ملکیت سے باہر نہیں ہوتی ہے

راوی:

عن سعيد بن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يغلق الرهن الرهن من صاحبه الذي رهنه له غنمه وعليه غرمه " . رواه الشافعي مرسلا وروي مثله أو مثل معناه لا يخالف عنه عن أبي هريرة متصلا

حضرت سعید بن مسیب (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی چیز کو گروی رکھنا مالک کو کہ جس نے وہ گروی رکھی ہے (ملکیت سے ) نہیں روکتا (یعنی کسی چیز کو گروی رکھ دینے سے راہن کی ملکیت ختم نہیں ہوتی ) اس لئے اس گروی رکھی ہوئی چیز کے ہر نفع و بڑھوتری کا حقدار راہن ہے اور وہی اس کے نقصان کا ذمہ دار ہے اس روایت کو امام شافعی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور اس قسم کی ایک اور حدیث (یعنی ہم معنی بھی اور ہم لفظ بھی ( حضرت سعید بن مسیب سے روایت کی گئی ہے جسے سعید بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ بطریق اتصال نقل کیا ہے یا وہ روایت ہم معنی ہے اور اس کے الفاظ محتلف ہیں مگر الفاظ کا یہ اختلاف ایسا نہیں ہے جو اس کے ہم معنی ہونے کے منافی ہو ۔

تشریح :
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کے پاس رہن رکھ دے تو اس کا یہ رہن رکھنا اس چیز کی ملکیت کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جوں کی توں راہن کی ملکیت میں رہتی ہے اس لئے حدیث نے اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ اس رہن رکھی ہوئی چیز سے اگر کوئی نفع حاصل ہوتا ہے یا اس میں کوئی بڑھوتری ہوتی ہے تو وہ راہن کا حق ہے بایں طور کہ اگر اس چیز کا کرایہ آتا ہے تو راہن وہ کرایہ وصول کر سکتا ہے اگر وہ کوئی جانور ہے تو اس پر سوار ہو سکتا ہے یا اسے اپنی باربرداری میں استعمال کر سکتا ہے ایسے ہی اگر اس جانور کے بچے ہوں تو وہ بچے بھی راہن ہی کا حق ہوتے ہیں ۔ پھر جس طرح راہن رہن رکھی ہوئی چیز کے منافع کا حقدار ہوتا ہے اسی طرح اس کے نقصان کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے بایں طور کہ اگر وہ چیز مرتہن کے ہاں ہلاک و ضائع ہو جاتی ہے تو اس کا نقصان راہن ہی برداشت کرتا ہے اس کی وجہ سے مرتہن کے حق (یعنی جو قرض وغیرہ اس نے راہن کو دیا ہے ) میں سے کچھ بھی ساقط نہیں ہوتا بلکہ راہن کو پورا پورا قرض واپس کرنا ہوتا ہے ۔
لفظ روی مشکوۃ کے بعض نسخوں میں معروف کے ساتھ یعنی وری منقول ہے اس صورت میں اس کے فاعل امام شافعی ہوں گے اور لفظ مثلہ اور مثل منصوب ہی رہیں گے ۔

یہ حدیث شیئر کریں