کسی کو مال دینے سے اس کی دینی فضیلت لازم نہیں آتی
راوی:
وعن سعد بن أبي وقاص قال : أعطى رسول الله صلى الله عليه و سلم رهطا وأنا جالس فترك رسول الله صلى الله عليه و سلم منهم رجلا وهو أعجبهم إلي فقمت فقلت : ما لك عن فلان ؟ والله إني لأراه مؤمنا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أو مسلما " ذكر سعد ثلاثا وأجابه بمثل ذلك ثم قال : " إني لأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه " . متفق عليه . وفي رواية لهما : قال الزهري : فترى : أن الإسلام الكلمة والإيمان العمل الصالح
حضرت ابن ابی وقاص کہتے ہیں کہ (ایک دن ) جب کہ میں مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھا ہوا تھا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو کچھ مال عطا فرمایا اور ( اس جماعت میں سے ) ایک شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا ( یعنی اس کو کچھ نہیں دیا ) حالا نکہ وہ شخص میرے نزدیک ( دین کے اعتبار سے ان میں سب سے بہتر تھا ، ( یہ دیکھ کر ) میں کھڑا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عرض کیا کہ " فلاں شخص کے لئے کیا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے عطیہ سے کیوں محروم رکھا ؟ اللہ کی قسم ! ( میں تو ) اس کو مؤمن صادق سمجھتا ہوں ۔" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " یوں نہ کہو کہ میں اس کو مؤمن صادق سمجھتا ہوں " بلکہ یہ کہو کہ میں اس کو مسلمان سمجھتا ہوں ۔" سعد نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ) تین بار یہ بات کہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی (ہر بار) اسی طرح جواب دیا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " میں ایک شخص کو (مال) دیتا ہوں درآنحالیکہ اس کی نسبت دوسرا شخص میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ شخص منہ کے بل دوزخ میں نہ ڈالا جائے ۔" ( بخاری ومسلم )
تشریح :
بلکہ یہ کہو الخ : اس ارشاد کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا کہ ایمان حقیقی کہ جس کا تعلق قلب کی گہرایئوں اور صدق باطن سے ہوتا ہے ، بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور چونکہ یہ کوئی ظاہری چیز نہیں ہوتی اس لئے اس پر مطلع ہونا ممکن نہیں ہے (یعنی کسی شخص کے ظاہری احوال کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ اس کے باطنی اعمال کیسے ہیں اور اس کا ایمان کس درجہ کا ہے ، کیونکہ ایمان حقیقی کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے ) ۔ اس کے برخلاف اسلام ، ایک نظر آنے والی چیز ہے کیونکہ اسلام نام ہے ظاہری اطاعت و فرمانبرداری کا ، اس لئے اگر تمہاری نظروں میں اس شخص کے ظاہری اعمال بہت اچھے ہیں تو تم اس کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ تو کہہ سکتے ہو کہ میں اس کو اچھا مسلمان سمجھتا ہوں لیکن یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اس کو مؤمن صادق سمجھتا ہوں ۔گویا اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد سعد کو اس غیر مناسب بات پر متنبّہ کرنا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص کے مستحق مال ہونے کو اپنی دلیل کے ساتھ بیان کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس شخص کو مال نہ دیئے جانے کو بعید از حقیقت جانا نیز انہوں نے اس شخص کے ایمان حقیقی کا دعویٰ کیا ۔
اس کی وجہ یہ اندیشہ ہوتا ہے الخ : اس سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ کسی شخص کو مال دینے سے اس کو پسندیدہ سمجھنا یا اس کو افضل جاننا لازم نہیں آتا اور نہ یہ ضروری ہے کہ مال کا دیا جانا دینی فضیلت وامتیاز کے اعتبار سے ہو بلکہ بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص کا ایمان کمزور ہوتا ہے اس کو تالیف قلب کے پیش نظر مال عطا کیا جاتا ہے تاکہ وہ محض مال نہ پانے کی وجہ سے کسی مایوسی اور غصہ کا شکار ہو کر کفر کے اندھیروں میں نہ چلا جائے اور پھر دوزخ میں ڈالا جائے ۔ لہٰذا اے سعد ! اس شخص کو مال دیئے جانے کا مطالبہ اتنے بڑے دعوے کے ساتھ نہ کرو کہ وہ کامل الایمان مؤمن ہے جب کہ اس کے حقیقی وکامل ایمان کا یقین کرنا بھی تمہارے لئے ممکن نہیں ہے ۔
" اسلام کلمہ کا نام ہے الخ : واضح رہے کہ اصل میں تو زہری کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ اسلام ، عمل صالح اور احکام شریعت کی اطاعت و فرمانبرداری سے عبارت ہے اور ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے، لیکن انہوں نے اس مشہور تعریف کے بجائے اسلام کو کلمہ سے اور ایمان کو عمل صالح سے تعبیر کیا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اقرار اسلام کا تعلّق کلمہ شہادت کو زبان سے ادا کرنے سے ہے ، جس شخص نے کلمہ شہادت پڑھا اس نے گویا اپنے اسلام کا اقرار کیا اور یہ اقرار اس بات کے لئے کافی ہے کہ اس کو ظاہری طور پر مسلمان مانا جائے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد سے یہی فرمایا تھا کہ تم اس شخص کے مسلمان ہونے کا تو یقین کر سکتے ہو کیونکہ اس نے اپنی زبان سے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اقرار کیا اور یہ اقرار اس بات کے لئے کافی ہے کہ اس کو بظاہر مسلمان ثابت کرنے لئے کافی ہے ، اسی بات کو زہری نے اس سے تعبیر کیا کہ اسلام کلمہ کا نام ہے کہ جس شخص نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگا دیا جائے گا ، اب رہی ایمان کو عمل صالح سے تعبیر کرنے کی بات ، تو اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ عمل صالح صادر ہونے کی بنیاد کیا ہوتی ہے ؟ بالکل ظاہر سی بات ہے کہ اس کی بنیاد تصدیق قلبی یعنی دل سے ایمان لانا ہے ، جو شخص اخلاص کے ساتھ عمل صالح کرتا ہے وہ گویا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے قلب میں ایمان جاگزیں ہے اور اس سے عمل صالح کا صادر ہونا تصدیق قلبی اور کمال ایمان کی بناء پر ہے ، اس اعتبار سے زہری نے " ایمان " کی وضاحت عمل صالح سے کی ۔