مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1117

ذوی القربیٰ میں مال خمس کی تقسیم کے موقع پر حضرت عثمان وغیرہ کی محرومی

راوی:

وعن جبير بن مطعم قال : لما قسم رسول الله صلى الله عليه و سلم سهم ذوي القربى بين بني هاشم وبني المطلب أتيته أنا وعثمان بن عفان فقلنا : يا رسول الله هؤلاء إخواننا من بني هاشم لا ننكر فضلهم لمكانك الذي وضعك الله منهم أرأيت إخواننا من بني المطلب أعطيتهم وتركتنا وإنما قرابتنا وقرابتهم واحدة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنما بنو هاشم وبنو المطلب شيء واحد هكذا " . وشبك بين أصابعه . رواه الشافعي وفي رواية أبي داود والنسائي نحوه وفيه : " إنا وبنو المطلب لا نفترق في جاهلية ولا إسلام وإنما نحن وهم شيء واحد " وشبك بين أصابعه

اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت میں سے اپنے قرابتداروں کا حصّہ (یعنی خمس کہ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ) بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم کیا تو میں یعنی جبیر (بنو نوفل کی طرف سے ) اور عثمان ابن عفان ( بنو عبد شمس کی طرف سے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہ بھائی جن کا تعلق بنو ہاشم سے ہے ، ہم ان کی فضیلت وبزرگی کا تو انکار نہیں کرتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کیا ہے لہٰذا اس اعتبار سے ہماری بہ نسبت وہ آپ کے زیادہ قریب ہیں ( کیونکہ ان کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد ایک ہی ہیں (یعنی ہاشم ) اگرچہ ہمارے اور ان کے جد اعلیٰ بھی ایک ہی ہیں ) (یعنی عبد مناف ) لیکن ہمیں یہ بتایئے کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خمس کے مال میں سے جو ذوی القربیٰ کا حصّہ ہے ) ہمارے ان بھائیوں کو تو حصّہ دیا جن کا تعلق بنو مطلب سے ہے اور ہمیں محروم رکھا جب کہ ہماری یعنی بنو نوفل اور بنی عبد شمس کی اور ان کی یعنی بنی مطلب کی قرابت ایک ہی ہے (بایں طور کہ جس طرح ان کے دادا ہاشم کے بھائی تھے اسی طرح ہمارے دادا بھی ہاشم کے بھائی تھے گویا ان دونوں حضرات کی غرض کا حاصل یہ تھا کہ مال غنیمت میں سے جو خمس نکالا جاتا ہے وہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا حصّہ ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قرابت داروں کی ایک شاخ بنو مطلب کو مال خمس میں سے دیا لیکن دوسری دو شاخوں یعنی بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو کچھ نہیں دیا، جب کہ یہ ساری شاخیں ایک ہی جد اعلیٰ یعنی عبد مناف کی اولاد ہیں ، تو اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ ہے ؟ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان داخل کر کے (اور اس کی طرف اشارہ کر کے ) فرمایا کہ " (میں) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں (جانتا) کہ (جس طرح دونوں ہاتھوں کی یہ انگلیاں باہم مل کر ایک چیز ہو گئی ہیں اسی طرح ) بنو ہاشم اور بنو مطلب بھی ایک چیز ہیں ۔ " (شافعی ) ابوداو'د اور نسائی کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہم اور مطلب کی اولاد ، نہ زمانہ جاہلیت میں کبھی ایک دوسرے کے مخالف ہوئے اور نہ زمانہ اسلام میں، لہٰذا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم اور وہ ، دونوں ایک چیز ہیں" یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں