انتفاع رہن کا مسئلہ
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الظهر يركب بنفقته إذا كان مرهونا ولبن الدر يشرب بنفقته إذا كان مرهونا وعلى الذي يركب ويشرب النفقة " . رواه البخاري
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر سواری کی جائے تو اس پر جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اس کے بدلے میں اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور اگر دودھ والا جانور گروی ہو تو اس پر جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اس کے بدلے اس کا دودھ پیا جائے اور جو شخص سواری کرے اور دودھ پئے وہی اس کے مصارف کا ذمہ دار ہے ( بخاری)
تشریح :
حدیث کے پہلے جزو کی وضاحت کے ضمن میں ملا علی قاری نے جو مسئلہ لکھا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا کوئی جانور کسی کے پاس رہن رکھے تو اس جانور کے مصارف مثلًا دانہ وچارہ وغیرہ کا بار چونکہ راہن پر ہوتا ہے اسے باربرداری کے کام میں لائے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔
لیکن حضرت شیخ عبدالحق نے حدیث کے آخری جملہ (وعلی الذی یرکب ویشرب النفقۃ) ( اور جو شخص سواری کرے اور دودھ پئے وہی مصارف کا ذمہ دار ہے) کے تحت یہ لکھا ہے کہ جو شخص گروی رکھے ہوئے جانور پر سوار ہوگا یا اس کا دودھ پئے گا وہی اس کے مصارف کا بھی ذمہ دار ہوگا خواہ وہ راہن ہو یا مرتہن گویا مطلب یہ ہوا کہ اگر مرتہن اپنے پاس گروی رکھے ہوئے جانور کا گھاس دانہ کرتا ہے اور اس کے مصارف برداشت کرتا ہے تو وہ اس جانور کو اپنے مصرف میں لا سکتا ہے اور اس کا دودھ پی سکتا ہے اور اگر راہن اس جانور کا ( کہ جسے اس نے مرتہن کے پاس گروی رکھا ہے ) گھاس دانہ کرتا ہے اور اس کے مصارف برداشت کرتا ہے تو پھر اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس جانور کو اپنے استعمال میں لائے اور اس کا دودھ پیئے۔
حضرت شیخ کی اس وضاحت کی روشنی میں حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ مرتہن کو گروی رکھے ہوئے جانور سے نفع اٹھانا اور اس کے مصارف برداشت کرنا جائز ہے حالانکہ اکثر علماء اس کے برخلاف ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ مرتہن کے لئے یہ قطعًا جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرے اور یہ کہ گروی رکھی ہوئی چیز کا نفقہ (جیسے جانور کا گھاس دانہ ) راہن کے ذمہ ہے مرتہن کے لئے رہن سے نفع حاصل کرنا اس لئے ناجائز ہے کہ یہ بالکل کھلا ہوا مسئلہ ہے کہ جو قرض نفع لائے وہ حرام ہے اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث آگے آنیوالی حدیث کے ذریعہ منسوخ ہے۔