ادھارخریدنا اور گروی رکھناجائز ہے
راوی:
وعن عائشة قالت : اشترى رسول الله صلى الله عليه و سلم طعاما من يهودي إلى أجل ورهنه درعا له من حديد
(2/150)
2885 – [ 3 ] ( صحيح )
وعنها قالت : توفي رسول الله صلى الله عليه و سلم ودرعه مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من شعير . رواه البخاري
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ایک متعین مدت کے ادھار پر خریدا اور اپنے لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی (بخاری ومسلم)
تشریح :
اس حدیث سے چند مسائل معلوم ہوئے اول یہ کہ کوئی چیز ادھار قیمت پر خریدنا اور اس ادھار قیمت کے بدلے اپنی کوئی چیز رہن رکھنا جائز ہے دوم یہ کہ سفر کے علاوہ حضر یعنی اپنے شہر ومسکن میں بھی رہن رکھنا جائز ہے اگرچہ قرآن کریم نے جس آیت میں رہن رکھنے کی اجازت دی ہے اس میں سفر کی قید ہے اور وہ آیت یہ ہے (وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ) 2۔ البقرۃ : 283) یعنی اگر تم کہیں سفر میں ہو اور وہاں دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ پاؤ تو اطمینان کا ذریعہ رہن رکھنے کی چیزیں ہیں جو صاحب حق کے قبضہ میں دیدی جائیں۔
چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں سفر کی قید اتفاقی ہے رہن رکھنا جس طرح سفر میں جائز ہے اسی طرح حضر میں بھی جائز ہے اور سوم یہ کہ اہل ذمہ اسلامی سلطنت میں جزیہ دے کر رہنے والے اہل کتاب جیسے یہود ونصاری کے ساتھ معاملات کرنے جائز ہیں چنانچہ تمام علماء کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ اہل ذمہ اور کفار سے خرید وفروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان کے پاس جو مال ہے اس کا حرام نہ ہونا ثابت ومعلوم ہو لیکن اہل حرب کے ساتھ مسلمانوں کا ہتھیار یا سامان جنگ بیچنا جائز نہیں ہے اسی طرح مطلقًا کسی بھی کافر کے ہاتھ ایسی کوئی چیز بیچنی جائز نہیں ہے جو اس کے دین ومذہب کی تقویت کا باعث ہو نیز کفار کے ہاتھ مسلمانوں کا مصحف شریف (قرآن کریم) اور غلام بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔
علامہ نووی کہتے ہیں کہ یہ حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کا مال واسباب نہیں رکھتے تھے اور یہ تنگ دستی وقلت مال آپ کی شان استغناء توکل علی اللہ اور مال و زر سے آپ کی کلیۃً بے رغبتی کی ایک واضح مثال ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اہل ذمہ کے پاس مسلمانوں کا سامان جنگ گروی رکھنا جائز ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل یعنی گروی رکھنے کا یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کیا صحابہ سے نہیں کیا کے بارے میں بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ یہ شاہد بیان جواز کی خاطر تھا یعنی اپنے اس عمل کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا کہ اہل ذمہ کے ساتھ بھی اپنے معاملے کرنا جائز ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے ساتھ یہ معاملہ اس لئے کیا کہ اس وقت اپنی حاجت وضرورت سے زائد غلہ یہودیوں کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں تھا۔
-3 اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حال میں وصال ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی ( بخاری)