جس مال سے مسلمانوں کے حقوق متعلق ہوں اس میں ناحق تصرف کرنے والے کے بارے میں وعید
راوی:
وعنه قال : أهدى رجل لرسول الله صلى الله عليه و سلم غلاما يقال له : مدعم فبينما مدعم يحط رحلا لرسول الله صلى الله عليه و سلم إذ أصابه سهم عاثر فقتله فقال الناس : هنيئا له الجنة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كلا والذي نفسي بيده إن الثملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا " . فلما سمع ذلك الناس جاء رجل بشرك أو شراكين إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " شراك من نار أو شراكان من نار "
(2/408)
3998 – [ 14 ] ( صحيح )
وعن عبد الله بن عمرو قال : كان على ثقل النبي صلى الله عليه و سلم رجل يقال له كركرة فمات فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " هو في النار " فذهبوا ينظرون فوجدوا عباءة قد غلها . رواه البخاري
" اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک غلام ھدیہ کے طور پر پیش کیا جس کا نام مدعم تھا ( ایک دن کسی میدان جنگ میں ) وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اچانک کسی نا معلوم شخص کا تیر آ کر اس کو لگا جس سے جان بحق ہو گیا ، لوگوں کہا " مدعم کو جنت مبارک ہو یعنی مدعم خوش قسمت رہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے ہوئے شہید ہوا اور جنت میں پہنچ گیا " ( یہ سن کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " نہیں ! ایسا نہیں ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے ، وہ چادر جس کو مدعم نے خیبر کے دن مال غنیمت میں سے اس کی تقسیم سے قبل لے لیا تھا ، آگ بن کر مدعم پر شعلے برسا رہی ہے ۔" جب ان لوگوں نے ( اس شدید وعید وتنبیہ کو سنا ) ( جنہوں نے مال غنیمت میں خیانت کرنے کو سہل سمجھ لیا تھا اور یہ گمان کر لیا تھا کہ چھوٹی موٹی اور حقیر چیزوں کو لے لینے پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا تو وہ کانپ گئے اور انہوں نے مال غنیمت میں سے جو چھوٹی موٹی چیزیں لے لی تھیں ان کو لا لا کر واپس کرنے لگے یہاں تک کہ ) ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے ( واپس کرنے کے لئے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت " میں لایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس کو دیکھ کر ) فرمایا کہ " یہ آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں یعنی خیانت کی چیز ہر حالت میں دوزخ کی آگ کا سزا وار کرے گی خواہ وہ کتنی ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
اس حدیث میں اس شخص کے لئے سخت تنبیہ اور شدید وعید ہے جو کسی ایسے مال میں سے کھائے جس کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق متعلق ہوں ۔ جیسے اوقاف اور بیت المال وغیرہ کیونکہ کسی ایک شخص کا حق تو واپس کیا جا سکتا ہے لیکن بہت سوں کے حقوق کی واپسی اور ان کی حق تلفیوں کی تلافی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔
" اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام کرکرہ تھا ( کسی غزوے میں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( کی طرف سے سامان واسباب ) کا نگران مقرر ہوا ، جب اس کا انتقال ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " وہ ( کر کرہ ) دوزخ میں ڈالا گیا ہے ۔" چنانچہ لوگوں نے ( اس کے سامان کو ) دیکھنا شروع کیا تو اس میں ایک کملی پائی گئی جس کو اس نے مال غنیمت میں سے خیانت کر کے لیا تھا۔" ( بخاری )
تشریح :
یحییٰ کہتے ہیں کہ لفظ فذھبوا میں حرف فا عاطفہ ہے ، گویا اس لفظ سے پہلے یہ مفہوم مخدوف ہے کہ " صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا تو انہیں معلوم ہوا کہ کرہ کے حق میں یہ وعید اس سبب سے ہے کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی چنانچہ انہوں نے اس کے سامان کو دیکھنا شروع کیا الخ "