مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے بارے میں وعید
راوی:
وعن خولة الأنصارية قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن رجالا يتخوضون في مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة " . رواه البخاريوعن أبي هريرة قال : قام رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم فذكر الغلول فعظمه وعظم أمره ثم قال : " لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته بعير له رغاء يقول : يا رسول الله أغثني فأقول : لا أملك لك شيئا قد أبلغتك . لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته فرس له حمحمة فيقول : يا رسول الله أغثني فأقول : لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته شاة لها ثغاء يقول : يا رسول الله أغثني فأقول : لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته نفس لها صياح فيقول : يا رسول الله أغثني فأقول : لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته رقاع تخفق فيقول : يا رسول الله أغثني فأقول : لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته صامت فيقول : يا رسول الله أغثني فأقول : لا أملك لك شيئا قد أبلغتك " . وهذا لفظ مسلم وهو أتم
اور حضرت خولہ انصاریہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بعض لوگ اللہ کا مال یعنی غنیمت فئی اور زکوۃ کے مال میں ناحق یعنی بغیر کسی استحقاق کے تصرف کرتے ہیں ، لہذا ایسے لوگ قیامت کے دن آگ کے سزاوار ہو گے ۔" ( بخاری )
تشریح :
یعنی اگر انہوں نے حلال جان کر ناحق تصرف کیا ہوگا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں جلیں گے اور اگر انہوں نے اس گناہ کا ارتکاب اس کو حلال جان کر نہیں کیا ہوگا پھر حق تعالیٰ جتنی مدت کے لئے چاہے گا ان کو دوزخ کے عذاب میں مبتلا رکھے گا
" اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور ( اس خطبہ کے دوران ) مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بہت بڑا گناہ بتایا اور بڑی اہمیت کے ساتھ اس کو بیان کیا اور پھر فرمایا کہ " خبردار )" میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر بلبلاتے ہوئے اونٹ کو لادے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئے ( یعنی جو شخص مال غنیمت میں سے مثلا اونٹ کی خیانت کرے گا وہ شخص میدان حشر میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کی گردن پر وہی اونٹ سوار ہوگا اور بلبلا رہا ہوگا ) اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی ( شفاعت) کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں (اب ) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ( یعنی تمہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا کہ مال غنیمت میں خیانت یا کسی چیز میں ناحق تصرف بہت بڑا گناہ ہے ) ۔ ( اور خبردار ) میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر ممیاتی ہوئی بکری لادے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریا درسی کی جائے اور میں اس کے جو اب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب ) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ۔ ( اور خبردار !) میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر کسی چلاتے ہوئے آدمی کو ( یعنی اس غلام یا باندی کو جو اس نے غنیمت کے قیدیوں میں سے خیانت کر کے لئے ہو ) لادے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئیے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب ) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ۔ ( اور خبردار ! میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر لہراتے ہوئے کپڑے رکھے ہو ( میدان حشر میں ) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہے دوں کہ میں ( اب ) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ۔ (خبر دار ! ) میں تم میں کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر سونا چاندی لادے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریا درسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے ۔" اس روایت کو ( معنی و مضمون کے اعتبار سے ) بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے ، الفاظ مسلم کے ہیں جو بخاری کے الفاظ کی بہ نسبت ) پورے و مکمل ہیں ۔"