مخصوص طور پر بعض مجا ہدوں کو ان کے حصے سے زائد دیا جا سکتا ہے
راوی:
وعن سلمة بن الأكوع قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم بظهره مع رباح غلام رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا معه فلما أصبحنا إذا عبد الرحمن الفزاري قد أغار على ظهر رسول الله صلى الله عليه و سلم فقمت على أكمة فاستقبلت المدينة فناديت ثلاثا يا صباحاه ثم خرجت في آثار القوم أرميهم بالنبل وأرتجز وأقول :
أنا ابن الأكوع واليوم يوم الرضع
فما زلت أرميهم وأعقر بهم حتى ما خلق الله من بعير من ظهر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلا خلفته وراء ظهري ثم اتبعتهم أرميهم حتى ألقوا أكثر من ثلاثين بردة وثلاثين رمحا يستخفون ولا يطرحون شيئا إلا جعلت عليه آراما من الحجارة يعرفها رسول الله صلى الله عليه و سلم وأصحابه حتى رأيت فوارس رسول الله صلى الله عليه و سلم ولحق أبو قتادة فارس رسول الله صلى الله عليه و سلم بعبد الرحمن فقتله قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خير فرساننا اليوم أبو قتادة وخير رجالتنا سلمة " . قال : ثم أعطاني رسول الله صلى الله عليه و سلم سهمين : سهم الفارس وسهم الراجل فجمعهما إلي جميعا ثم أردفني رسول الله صلى الله عليه و سلم وراءه على العضباء راجعين إلى المدينة . رواه مسلم
(2/407)
3990 – [ 6 ] ( متفق عليه )
وعن ابن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان ينفل بعض من يبعث من السرايا لأنفسهم خاصة سوى قسمة عامة الجيش
(2/407)
3991 – [ 7 ] ( متفق عليه )
وعنه قال : نفلنا رسول الله صلى الله عليه و سلم نفلا سوى نصيبنا من الخمس فأصابني شارف والشارف : المسن الكبير
اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ ( مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان معاہدہ ہو جانے کے بعد حدیبیہ سے واپسی کے دوران راستہ میں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ، سواری کے اونٹ رباح کے ساتھ ، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ، آگے روانہ کر دئیے میں بھی رباح کے ساتھ ہو لیا ، ( ہم دونوں نے رات میں ایک جگہ قیام کیا اور) جب صبح ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا کہ عبدالرحمن فزاری نے ( جو مسلمانوں کا ایک مشہور دشمن اور کافر تھا ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر چھاپہ مارا اور ان کو ہنکا کر لے گیا ، میں ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور مدین کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ یا صباحاہ ( یعنی خبردار ! دشمن آ پہنچا ) کا نعرہ بلند کیا اور تیر پر تیر پھینکتا ہوا اس قوم یعنی عبدالرحمن اور اس کے ساتھیوں کے نشانات قدم پر ( یعنی ان کے پیچھے ) چل پڑا اس وقت میری زبان پر ( بلند آواز میں ) رجز یعنی رزمیہ شعر تھے ، میں نے کہا تھا (انا ابن الاکوع والیوم یوم الرضع) یعنی ( اے دین کے دشمنو ! کان کھول کر سن لو ) میں اکوع کا بیٹا ہوں ، آج کا دن برے لوگوں ( یعنی تم دشمنان دین ) کے ہلاک ہونے کا دن ہے ! میں اسی طرح برابر تیر مارتا اور ان کی سواریوں کی کونچیں کاٹتا ( آ گے بڑھتا ) رہا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں میں سے اللہ کا پیدا کیا ہوا ایسا کوئی اونٹ باقی نہیں بچا جس کو میں نے اپنے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو ، میں تیر برساتا ہوا ان کا تعاقب جاری رکھے ہوئے تھا یہاں تک کہ انہوں نے ہلکا ہو جانے کے خیال سے اپنی تیس سے زیادہ چادریں اور تیس کپڑے پھینک دئیے ( یعنی وہ بھاگتے ہوئے اپنی چادریں اور کپڑے بھی پھینکتے جا رہے تھے تاکہ جسم ہلکا ہو جانے کی وجہ سے بھاگنے میں آسانی ہو ) اور وہ جس چیز کو بھی پھینکتے تھے میں اس پر نشان کے طور پر پتھر رکھ دیتا تھا تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء ( اگر پیچھے سے آئیں تو ) اس کو پہچان لیں یہاں تک میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو ( آتے دیکھا اور پھر ( یہ دیکھا کہ ) حضرت ابوقتادہ نے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوار کہا جاتا تھا ، عبدالرحمن کو جا لیا ( جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو ہنکا لے جانا چاہا تھا ) اور اس کو قتل کر دیا ۔ پھر ( اس ہنگامہ کے ختم ہونے کے بعد ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " آج ہمارے سواروں میں سب سے بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بہتر پیادہ سلمہ ابن اکوع ہیں ۔" اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جب ان کافروں سے ہاتھ لگے ہوئے مال کو ہمارے درمیان تقسیم فرمایا تو ) مجھ کو دو حصے دئیے ( ایک حصہ سوار کا ( کہ وہ بحسب اختلاف مسلک دو حصے ہیں یا تین حصے ) اور ایک حصہ پیادہ کا ، دونوں حصے اکٹھا کر کے مجھے عطا فرمائے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی عضباء پر مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔" ( مسلم )
تشریح :
" رضع " دراصل راضع کی جمع ہے جیسے ارکع کی جمع رکع ہے !راضع پاجی اور کمینہ شخص کو کہتے ہیں آرام ( پہلے الف کے مد کے ساتھ ) ارم کی جمع ہے جیسے عنب کی جمع اعناب ہے ! ارم اس پھتر کو کہتے ہیں جو منگل ومیدان میں راستہ یا کسی دفینہ کے نشان و علامت کے طور پر نصب کیا گیا ہو ۔ اہل عرب کی یہ عادت تھی جب وہ راستہ میں کوئی چیز پاتے اور اس کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکتے تو اس پر بطور نشان کو یا پتھر رکھ دینے یا پتھروں کا ڈھیر کر کے اس کے نیچے اس کو چھپا دیتے اور پھر آ کر اسی نشان سے وہ چیز نکال کر لے جاتے ۔
حضرت سلمہ اگرچہ پیادہ تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پیادہ کا حصہ دینے کے ساتھ سوار کا حصہ بھی دیا کیونکہ یہ سارا معرکہ ایک طرح سے انہی کی جدوجہد سے سر ہوا گویا وہ اس غزوے کے ایک بڑے منتظم بھی تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ امام وقت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مال غنیمت میں سے کسی ایسے مجاہد کو اس کے حصے سے زیادہ دے دے ۔ جس نے جہاد میں بہت زیادہ محنت و جدوجہد کی ہو تاکہ لوگ جہاد میں زیادہ سے زیادہ محنت و جدوجہد کرنے کی طرف راغب ہوں
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کو جہاد کے لئے بھیجتے تھے ان میں سے بعض لوگوں کے لئے عام لشکر والوں کی بہ نسبت مخصوص طور پر کچھ زیادہ حصہ لگا دیا کرتے تھے۔" (بخاری ومسلم)
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کی تقسیم کے وقت بعض مجاہدوں کو ان کے مقررہ حصوں سے کچھ زیادہ دے دیا کرتے تھے تا کہ انہیں دشمنوں کے مقابلہ پر لڑنے کی ترغیب ہو ۔
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو خمس مال میں سے ہمارے مقررہ حصوں کے علاوہ بھی کچھ زیادہ مرحمت فرمایا چنانچہ میرے حصے میں ایک شارف آئی اور شارف اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو بوڑھی اور بڑی ہو ۔"
(بخاری ومسلم )