مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قیدیوں کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1078

کفار مکہ کے مسلمان ہوجانے والے غلاموں کو واپس کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار

راوی:

وعن علي رضي الله عنه قال : خرج عبدان إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم يعني الحديبية قبل الصلح فكتب إليه مواليهم قالوا : يا محمد والله ما خرجوا إليك رغبة في دينك وإنما خرجوا هربا من الرق . فقال ناس : صدقوا يا رسول الله ردهم إليهم فغضب رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال : " ما أراكم تنتهون يا معشر قريش حتى يبعث الله عليكم من يضرب رقابكم على هذا " . وأبى أن يردهم وقال : " هم عتقاء الله " . رواه أبو داود

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن (مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان ) معاہدہ لکھے جانے سے پہلے کچھ غلام (مکہ سے آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ان کے مالکوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم یہ غلام تمہارے پاس اس لئے نہیں پہنچے ہیں کہ وہ تمہارے دین کی طرف رغبت رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ غلامی ( سے نجات پانے کی غرض سے بھاگ کر گئے ہیں ( جب صحابہ میں سے) چند لوگوں نے ( یہ مکتوب دیکھا تو ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان کے مالکوں نے بالکل صحیح لکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیجے ( یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہو گئے اور فرمایا کہ قریش والو میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہیں آؤ گے تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ تم پر اس شخص کو مسلط نہ کر دے جو تمہارے اس فیصلے کہ ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیا جائے اور اس طرح ان کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کو دار الحرب کے حوالے کر دیا جائے ) کی بناء پر تمہاری گردن اڑا دے " اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کی واپسی کے مطالبہ کو رد کر دیا اور فرمایا کہ " یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں " ۔ (ابو داؤد )

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے غضبناک ہوئے کہ صحابہ نے ان غلاموں کے حق میں اپنی ذاتی رائے کو شرعی حکم کے مقابل پیش کیا اور گویا ان کے مالکوں کے دعوے کی گواہی دی ، چنانچہ ان غلاموں کے حق میں شرعی حکم یہ تھا کہ وہ چونکہ دار الحرب سے نکل آنے کے سبب محض اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے معصوم اور آزاد ہو گئے تھے ان کو ان کے پاس دارالحرب واپس کر دینا جائز نہیں تھا ، لہٰذا صحابہ کا ان کی واپسی کے مطالبہ کی تائید کرنا جبر وزیادتی پر ان کے مالکوں کی مدد کرنے کے مترادف تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں