جنگ بدر کے قیدیوں میں سے قتل کئے جانے والے کفار
راوی:
وعنها : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما أسر أهل بدر قتل عقبة بن أبي معيط والنضر بن الحارث ومن على أبي عزة الجمحي . رواه في شرح السنة والشافعي وابن إسحاق في " السيرة "
(2/402)
3972 – [ 13 ] ( لم تتم دراسته )
وعن ابن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما أراد قتل عقبة بن أبي معيط قال : من للصبية ؟ قال : " النار " . رواه أبو داود
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر (کی جنگ میں مجاہدین اسلام کے خلاف لڑنے ) والوں (میں سے جن کفار کو قید کیا تھا ان میں سے عقبہ ابن ابومعیط اور نضر ابن حارث کو قتل کرا دیا اور ابوغرہ کو (بلا معاوضہ رہا کر کے ) ممنوع کیا ۔" (شرح السنۃ )
تشریح :
امام وقت (یعنی واسلامی مملکت کے سربراہ ) کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو غیر مسلم (دشمن کے لوگ ) اس کی قید میں ہوں اور وہ اسلام قبول نہ کریں تو وہ چاہے ان کو موت کے گھاٹ اتار دے ۔ چاہے غلام بنا کر رکھے اور چاہے مسلمانوں کے عہد امان کی بناء پر ان کو آزاد کر کے چھوڑ دے ، البتہ ان کو ممنوع کرنا یعنی بلا کسی معاوضہ کے ان کو رہا کر دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا جواز منسوخ ہوگیا ہے ۔
اور حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عقبہ ابن معیط کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا تو (اس نے ) کہا کہ (میرے بچوں کو کون پالے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " آگ " ۔ (ابو داؤد )
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ بچوں کو آگ پالے گی ، گویا ان بچوں کے ضائع ہو جانے کے مفہوم کا حامل ہے ، یعنی اگر آگ اس چیز کی صلاحیت رکھتی کہ وہ کسی کی مددوگار وغمخوار ہو سکتی تو یقینا وہ بچوں کی بھی مددوگار وکفیل ہوتی لیکن چونکہ وہ ایسی ہی نہیں رکھتی اس لئے بچوں کا کوئی دوسرا مددگار وکفیل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تباہی لازمی ہے ۔
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ تو اب اپنی فکر کر کہ دوزخ کی آگ تیرا ٹھکانا بننے والی ہے ، بچوں کی فکر میں مبتلا نہ ہو کہ ان کی پرورش نہ تجھ پر منحصر ہے اور نہ کسی دوسرے پر ، ان کا مددگار وکفیل اللہ کی ذات ہے وہی ان کی پرورش کرائے گا۔