مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قیدیوں کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1072

غزوئہ حنین کے قیدیوں کی واپسی

راوی:

وعن مروان والمسور بن مخرمة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قام حين جاءه وفد من هوازن مسلمين فسألوه أن يرد إليهم أموالهم وسبيهم فقال : " فاختاروا إحدى الطائفتين : إما السبي وإما المال " . قالوا : فإنا نختار سبينا . فقام رسول الله صلى الله عليه و سلم فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال : " أما بعد فإن إخوانكم قد جاؤوا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل " فقال الناس : قد طيبنا ذلك يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنا لا ندري من أذن منكم ممن لم يأذن فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم أمركم " . فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا . رواه البخاري

اور حضرت مروان اور حضرت مسور ابن مخرمہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (خطبہ ارشاد کرنے کے لئے ) کھڑے ہوئے جب قبیلہ ہوازن کے لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے قیدی واپس کر دئیے جائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لو یعنی یا تو قیدیوں کو رہا کرا لے جاؤ یا مال واپس لے لو ؟ " انہوں نے عرض کیا کہ " ہم اپنے قیدیوں کو رہا کرانا پسند کرتے ہیں " تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کے سامنے ) یہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی جس کا وہ مستحق ہے اور پھر فرمایا کہ !بعد ازاں یہ (قبیلہ ہوازن کے لوگ ) جو تمہارے (دینی یا نسبی ) بھائی ہیں (اپنے کفر وشرک سے ) توبہ کر کے (اور مسلمان ہو کر ) تمہارے پاس آئے ہیں ، میں نے اس چیز کو مناسب سمجھا ہے کہ ان کو ان کے قیدی واپس کر دے ) اور جو شخص اپنے حصہ پر قائم رہنا چاہے تاوقتیکہ ہم اس کا عوض اس پہلے آنے والے مال میں سے نہ دے دیں جو اللہ تعالیٰ ہمیں غنیمت کے طور پر عطا کرے تو وہ ایسا ہی کرے (یعنی جو شخص اپنے حصے کے قیدی کو بغیر معاوضہ نہ دینا چاہے تو وہ ہمیں بتائے کہ وہ کیا معاوضہ لے گا تاکہ ہم یہ انتظام کر دیں کہ اب کہیں سے جو سب سے پہلے مال غنیمت آئے اس میں سے اس کا وہ معاوضہ ادا کر دیا جائے ! لوگوں نے (یعنی بعض صحابہ یا بلا امتیاز تمام صحابہ نے ) عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم اس پر (یعنی قیدیوں کو واپس کر دینے پر ) خوشی کے ساتھ آمادہ ہیں ۔" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں (اس مجمع میں') یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ تم میں سے کون شخص راضی ہے اور جو شخص راضی نہیں ہے اس کا امتیاز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا تم سب لوگ (اپنے اپنے گھر ) لوٹ جاؤ اور اپنے خاندان وقبیلہ کے سرداروں سے اس بارے میں مشورہ کر لو ) تاآنکہ تمہارے (وہ ) سردار تفصیل کے ساتھ ) ہمارے سامنے تمہارا فیصلہ پیش کریں ۔" چنانچہ سب لوگ لوٹ کر چلے گئے اور جب ان کے سرداروں نے ان سے گفتگو کر لی تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتایا کہ وہ (قیدیوں کو واپس کر دینے پر ) راضی ہیں اور انہوں نے (اس امر کی ) اجازت دے دی ہے ۔" (بخاری )

تشریح :
مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب طائف کے لئے جو راستہ جاتا ہے اس راستے پر ایک وسیع میدان ملتا ہے جس کے اطراف میں پہاڑیاں ہیں اور اس سے گذرنے کے بعد چھوٹی سی بستی ملتی ہے ، اس میدان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے آس پاس قبیلہ ہوازن کے لوگ آباد تھے اور یہیں فتح مکہ کے بعد وہ غزوہ ہوا تھا جس کو غزوہ حنین یا غزوہ ہوازن کہتے ہیں ۔ اس غزوہ میں غزوہ میں غنیمت کا بہت زیادہ مال مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور دشمن کے بے شمار بال بچے قیدی بنا کر مدینے لائے گئے تھے جن کو صحابہ کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے چنانچہ جب اس غزوہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تو وہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اپنے مال اور اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ، چونکہ ان کا مال اور قیدی مجاہدین اسلام (یعنی صحابہ ) کی ملکیت ہوگئے تھے اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی ملکیت کو واپس کرنا جائز نہیں تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں صحابہ کے سامنے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا اور ان سے مذکورہ اجازت طلب کی ۔

یہ حدیث شیئر کریں