مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قیدیوں کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1068

سردار یمامہ کے اسلام لانے کا واقعہ

راوی:

وعن أبي هريرة قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له : ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " ماذا عندك يا ثمامة ؟ " فقال : عندي يا محمد خير إن نقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى كان الغد فقال له : " ما عندك يا ثمامة ؟ " فقال : عندي ما قلت لك : إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت . فتركه رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى كان بعد الغد فقال له : " ما عندك يا ثمامة ؟ " فقال : عندي ما قلت لك : إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا دم وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أطلقوا ثمامة " فانطلق إلى نخل قريب من المسجد فاغتسل ثم دخل المسجد فقال : أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله يا محمد والله ما كان على وجه الأرض وجه أبغض إلي من وجهك فقد أصبح وجهك أحب الوجوه كلها إلي والله ما كان من دين أبغض إلي من دينك فأصبح دينك أحب الدين كله إلي و والله ما كان من بلد أبغض إلي من بلدك فأصبح بلدك أحب البلاد كلها إلي . وإن خيلك أخذتني وأنا أريد العمرة فماذا ترى ؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه و سلم وأمره أن يعتمر فلما قدم مكة قال له قائل : أصبوت ؟ فقال : لا ولكني أسلمت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم والله لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم واختصره البخاري

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کو (جہاد کرنے کے لئے ) بخد کی طرف روانہ کیا ، لشکر کے لوگ (قبیلہ ) بنو حنیفہ کے ایک شخص کو پکڑ کر (مدینہ ) لائے جس کا نام ثمامہ ابن اثال تھا اور جو شہر یمامہ کا سردار تھا ، اس شخص کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا (تاکہ وہ بھاگ نہ سکے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس سے پوچھا کہ " کہو ثمامہ ! تمہارے پاس (کہنے سننے کو ) کیا ہے ؟ (یعنی بتاؤ تمہارا کیا حال ہے میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح کا سلوک کروں گا ؟ ) ثمامہ نے کہا کہ " میرے پاس بھلائی ہی بھلائی ہے یا میرے پاس بہت مال ہے ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مجھ کو قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے (جو قتل ہی کئے جانے کا مستحق ہے ، ان الفاظ کے ذریعہ گویا ثمامہ نے اپنی تقصیر کا اعتراف واقرار کیا ، یا اس کے ان الفاظ کا یہ مطلب تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قتل کر دیں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا کیونکہ میری قوم میرا خون معاف نہیں کرے گی بلکہ آپ سے بدلہ لے گی ، اس صورت میں اس نے گویا اپنی امارت اور اپنی ریاست و وجاہت کا دعوی کیا ) اور اگر آپ (مجھے باعزت رہائی دے کر میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ایک شخص ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گذار وقدر دان سے (یعنی میں بھی اس اچھے سلوک کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدلہ دوں گا ) اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال چاہتے ہیں تو مانگیے ، جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا ۔" (یہ باتیں سن کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو (اس حال پر ) چھوڑ دیا جب دوسرا دن آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ ! تمہارے پاس ) کہنے سننے کو کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ " میرے پاس وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گزار وقدردان ہے ، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا ۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس دن بھی یہ سن کر ) اس کو (اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ اور جب تیسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے ؟" اس نے کہا وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ " اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گذار وقدر دان ہے ، اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) حکم دیا کہ " ثمامہ کو رہا کر دیا جائے ۔" چنانچہ (رہائی پانے کے بعد کچھ کہے سنے بغیر ) کھجوروں کے ان درختوں (کے جھنڈ ) میں چلا گیا جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے اور وہاں سے نہا دھو کر پھر مسجد نبوی میں آیا اور (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ) کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ " یعنی میں (سچے دل کے اعتراف واقرار کے ساتھ ) گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (پھر کہنے لگا کہ ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ نفرت انگیز کوئی چہرہ نہیں تھا لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک میرے نزدیک (دنیا کے ) سارے چہروں سے زیادہ پیارا ہے ، اللہ کی قسم !میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے زیادہ نفرت انگیز کوئی دین نہیں تھا لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین میرے نزدیک سارے دینوں سے زیادہ پیارا ہے اور اللہ کی قسم ! میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے زیادہ نفرت انگیز کوئی شہر نہیں تھے لیکن اب میرے نزدیک سارے دنیا کے سارے شہروں سے زیادہ پیارا ہے ۔ پھر (اس عرض کیا کہ یا رسول اللہ !) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لشکر نے مجھے اس وقت گرفتار کیا تھا جب کہ میں عمرہ (کرنے کے لئے مکہ جانے کا ارادہ کر رہا تھا تو اب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں (آیا میں عمرہ کے لئے مکہ جاؤں یا نہیں ؟ ) " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے تو) اس کو بشارت دی کہ اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے تمہیں شرف وعظمت انسانیت حاصل ہو گئی ہے اور تمہارے پہلے سارے گناہ بخش دیئے گئے ہیں ) اور پھر ان کو عمرہ کرنے کا حکم دیا ۔
اس کے بعد ثمامہ جب (عمرہ کرنے کے لئے ) مکہ پہنچے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا کہ " تم تو بے دین ہو گئے ہو ۔" ثمامہ نے جواب دیا کہ " نہیں ! میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے ، میں بے دین نہیں ہوا ہوں اور (یاد رکھو!) اللہ کی قسم ! اب یمامہ سے تم کو گہیوں کا ایک دانہ بھی نہیں بھیجا جائے گا جب تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت نہ دیں ۔" (مسلم ) اس روایت کو بخاری نے بھی اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں