مدینہ کے عہد شکن یہودیوں کے متعلق فیصلہ
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري قال : لما نزلت بنو قريظة على حكم سعد بن معاذ بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم إليه فجاء على حمار فلما دنا قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قوموا إلى سيدكم " فجاء فجلس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن هؤلاء نزلوا على حكمك " . قال : فإني أحكم أن تقتل المقاتلة وأن تسبى الذرية . قال : " لقد حكمت فيهم بحكم الملك " . وفي رواية : " بحكم الله "
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب (مدینہ میں آباد ) بنوقریظہ (کے یہودی) حضرت سعد ابن معاذ کو حاکم تسلیم کر لینے پر اتر آئے (یعنی وہ اس پر آمادہ ہوئے کہ سعد ابن معاذ جو فیصلہ کریں گے ہم اس کو تسلیم کر لیں گے ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا ، سعد ابن معاذ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے اور جب وہ قریب پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حاضرین سے ) کہا کہ " تم لوگ اپنے سردار کی تعظیم یا ان کی مدد " کے لئے کھڑے ہو جاؤ " سعد ابن معاذ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ) آ کر بیٹھ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا کہ " یہ لوگ (یعنی بنو قریظہ کے یہودی) تمہیں حکم ماننے پر راضی ہو گئے ہیں ۔ " سعد ابن معاذ نے کہا کہ " میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان (یہودیوں ) میں سے جو لوگ لڑنے (کی صلاحیت رکھنے ) والے ہیں ان کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے ۔" 'آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا " تم نے ان کے بارے میں بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے یعنی تم نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہے ) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ " تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے " ۔ ( بخاری ومسلم )
تشریح :
حضرت سعد ابن معاذ بڑے اونچے درجہ کے صحابی اور مشاہیر انصار میں سے ہیں مدینہ کے انصار ان کو اپنا سردار اور بڑا مانتے تھے ۔ " بنو قریظہ " مدینہ کے یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا ، یہ قبیلہ حضرت سعد ابن معاذ کا حلیف اور اس کے یہودی ان کے عہد وامان میں تھے ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے قبائل یہود سے ایک باہمی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ، باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے شہری اور سیاسی حقوق ومفادات کے تحفظ کے معاملات طے پائے تھے لیکن یہودیوں نے کچھ ہی دنوں بعد اس معاہدہ کو بالائے طاق رکھ دیا ، اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ان کو نقصان پہنچانے کے اقدامات میں مشغول ہوگئے ، چنانچہ دوسرے یہودی قبائل کی طرح " بنوقریظہ " بھی اس عہد شکنی کے مرتکب ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ٥ھ میں غزوہ خندق کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان (بنوقریظہ ) کے خلاف جہاد کا ارادہ کیا اور ان کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ پچیس ٢٥روز تک جاری رہا جب بنو قریظہ بالکل مجبور ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ سعد ابن معاذ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کریں گے ہم ان اس کو منظور کریں گے ، ان کا خیال تھا کہ چونکہ ہم سعد کے حلیف اور ان کے عہد وامان میں ہیں اس لئے وہ ہماری رعایت کریں گے ، اور ہمیں اس محاصرہ سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے ، لیکن حضرت سعد نے اس تعلق کا لحاظ کئے بغیر وہی فیصلہ دیا جو ان یہودیوں کے حسب حال اور مصلحت وحکمت کے عین مطابق تھا ۔
" تم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ " اس حکم کے بارے میں امام نووی کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ صاحب فضل کی تعظیم وتوقیر کی جائے اور اس کے آنے پر تعظیمًا کھڑا ہو جانا چاہئے چنانچہ اکثر علماء نے اس مسئلہ میں اس ارشاد گرامی کو دلیل قرار دیا ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم حضرت سعد کی تعظیم کرنے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ اس بنا پر تھا کہ ان (سعد ) کی ران پر تیر کا زخم تھا جو غزوہ خندق میں ان کو لگا تھا اور اس کی وجہ سے وہ سواری پر سے خود اترنے سے مجبور تھے ، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور سواری پر سے اترنے میں سعد کی مدد کرو ۔