اقالئہ بیع کا مسئلہ
راوی:
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أقال مسلما أقاله الله عثرته يوم القيامة " . رواه أبو داود وابن ماجه
وفي " شرح السنة " بلفظ " المصابيح " عن شريح الشامي مرسلا
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مسلمان کی بیع کو واپس کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا (ابوداؤد ابن ماجہ) اور شرح السنۃ میں یہ روایت ان الفاظ میں ذکر کی گئی ہے جو مصابیح میں شریح شامی سے بطریق ارسال اقالہ جائز ہے۔
تشریح :
اقالہ کا مطلب ہے بیع کو واپس کر دینا یعنی فسخ کر دینا شرح السنہ میں لکھا ہے کہ بیع اور سلم میں قبل قبضہ بھی اور بعد قبضہ بھی اقالہ جائز ہے۔
اس روایت کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے متصل نقل کیا ہے اسی طرح حاکم نے بھی اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ متصل ہی نقل کیا ہے لیکن مصابیح میں یہ روای بطریق ارسال ان الفاظ میں منقول ہے حدیث (من اقال اخاہ المسلم صفقۃ کرہہا اقال اللہ عثرتہ یوم القیامۃ) جو شخص مسلمان کی کسی ناپسندیہ بیع کو واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا چنانچہ مؤلف مشکوۃ نے روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ گویا مصابیح کے مصنف علامہ بغوی پر اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب مصابیح میں اولی کو ترک کیا ہے بایں طور کہ ابوداؤد وابن ماجہ کی نقل کردہ یہ متصل روایت تو نقل نہیں کی بلکہ حدیث مرسل نقل کی ہے۔