مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد میں لڑنے کا بیان ۔ حدیث 1055

مجاہدین اسلام کے لئے امتیازی علامات

راوی:

وعن المهلب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إن بيتكم العدو فليكن شعاركم : حم لا ينصرون " . رواه الترمذي وأبو داود
(2/397)

3949 – [ 13 ] ( ضعيف )
وعن سمرة بن جندب قال : كان شعار المهاجرين : عبد الله وشعار الأنصار : عبد الرحمن . رواه أبو داود
(2/397)

3950 – [ 14 ] ( حسن )
وعن سلمة بن الأكوع قال : غزونا مع أبي بكر زمن النبي صلى الله عليه و سلم فبيتناهم نقتلهم وكان شعارنا تلك الليلة : أمت أمت . رواه أبو داود

اور حضرت مہلب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( غزوہ خندق میں ) ہم سے فرمایا کہ اگر دشمن تم پر شبخون مارے تو تمہاری ( یعنی مسلمانوں کی ) علامت (حم لا ینصرون) کے الفاظ ہونے چاہئیں ( ترمذی ابوداؤد )
تشریح :
فوجی اور جنگی قواعد وضوابط میں عام طور سے یہ معمول ہوتا ہے کہ فوجیوں کے لئے کچھ مخصوص علامتیں اور نشان متعین کر دیئے جاتے ہیں جن سے موافق ومخالف کے درمیان امتیاز کیا جا سکے یہ علامتیں غیر لفظی نشانات کی صورتوں میں تھی متعین ہوتی ہیں جو فوجیوں کے بدن اور وردیوں پر لگائے جاتے ہیں اور لفظی اشارات کی صورت میں بھی ہوتی ہیں جن کو زبان سے ادا کر کے اپنی حیثیت وحقیقت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔چنانچہ سربراہ لشکر کی طرف سے اپنے لشکر والوں کو پہلے سے یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اگر میدان جنگ میں یا کسی اور موقع پر تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو یہ فلاں لفظ زبان سے ادا کرنا تا کہ اگر پوچھنے والا اپنے ہی لشکر کا فرد ہو تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے ۔خاص طور پر شبخون مارے جانے کے وقت جب کہ عام افراتفری کا عالم ہوتا ہے اور اس موقع پر اپنے اور غیروں کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے اور اکثر اشتباہ ہو جاتا ہے ایسی علامات اور اشاراتی الفاظ کی بڑی ضرورت ہوتی ہے ۔ آج کل کی رائج الوقت اصطلاحات میں ایسے اشاراتی الفاظ کو انگریزی میں " کوڈ ورڈ " (code werd) کہتے ہیں ۔ لہٰذا غزوہ حنین کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن کی طرف سے شبخون مارے جانے کا خطرہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا کہ وہ ایسی حالت میں اپنی علامت (حٰم لا ینصرون) کے الفاظ کو قرار دیں تاکہ اس کے ذریعہ یہ پہنچانا جائے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ہے ۔ ان الفاظ کے معنی یہ ہیں (اے حم کے اتارنے والے ! دشمنوں کو کوئی مدد کو نہ ملے ۔

اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں کہ (کسی غزوے میں ) لفظ " عبداللہ " تو مہاجرین کی علامت تھی اور لفظ " عبدالرحمن ) انصار کی علامت تھی " (ابو داؤد )

اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے (ایک مرتبہ ) حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ (یعنی ان کی سربراہی میں ) جہاد کیا ، چنانچہ ہم نے ان (دشمنوں ) پر شبخون مارا اور ان کو قتل کیا اور اس رات میں ہماری شناختی علامت امت امت کے الفاظ تھے (ان الفاظ کے معنی ہیں " اے اللہ !دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دے ۔" (ابو داؤد)

یہ حدیث شیئر کریں