مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جہاد میں لڑنے کا بیان ۔ حدیث 1050

جہاد میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا مسئلہ

راوی:

وعن عبد الله بن عمر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن قتل النساء والصبيان
(2/395)

3943 – [ 7 ] ( متفق عليه )
وعن الصعب بن جثامة قال : سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم عن أهل الدار يبيتون من المشركين فيصاب من نسائهم وذراريهم قال : " هم منهم " . وفي رواية : " هم من آبائهم "

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور لڑکوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ( بخاری مسلم )

تشریح :
ہدایہ میں لکھا ہے کہ عورت لڑکے جاماندہ اندھے اور شیخ فانی ( بڈھے کھوسٹ ) کو قتل نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی لڑکا یا دیوانہ جنگ میں شریک ہوں اور قتال کر رہے ہوں تو ان کو قتل کیا جا سکتا ہے اسی طرح ملکہ عورت کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے نیز اس لڑکے کو بھی قتل کرنا ہے جو بادشاہ سردار ہو کیونکہ دشمن کے بادشاہ سردار کے قتل ہو جانے سے ان کی شان وشوکت ٹوٹ جاتی ہے

اور حضرت صعب ابن جثامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مشرکین کے بارے میں پوچھا گیا ۔ جو گھروں والے ہیں ( یعنی جو آبادیوں میں رہتے ہیں ) کہ اگر ان پر شبخون مارا جائے اور اس کے نتیجے میں ان کی عورت اور بچے مارے جائیں ( تو کیا حکم ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں ( بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جہاد میں عورتوں اور بچوں کو قصدًا قتل نہ کیا جائے ہاں اگر وہ شبخون کی صورت میں مارے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان کے جو لڑنے والے بڑے مرد ہیں ان سے ان کا امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی قتل کے حکم میں اپنے بڑوں کے مانند ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں