جہاد میں عورتوں کو لے جانے کا مسئلہ
راوی:
وعن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يغزو بأم سليم ونسوة من الأنصار معه إذا غزا يسقين الماء ويداوين الجرحى . رواه مسلم
(2/395)
3941 – [ 5 ] ( صحيح )
وعن أم عطية قالت : غزوت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم سبع غزوات أخلفهم في رحالهم فأصنع لهم الطعام وأداوي الجرحى وأقوم على المرضى . رواه مسلم
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( صحابہ کے ہمراہ جہاد میں تشریف لے جاتے تو اپنے ساتھ ام سلیم اور انصار کی دوسری عورتوں کو بھی لے جاتے وہ عورتیں ( غازیان اسلام کو ) پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرتیں (مسلم )
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرنے کی غرض سے زیادہ عمر والی عورتوں کو اپنے ساتھ لے جانا جائز ہے اور اگر مباشرت و صحبت کی غرض سے لے جانا ہو تو پھر آزاد عورتوں ( یعنی اپنی بیویوں ) کی بد نسبت لونڈیوں کو لے جانا بہتر ہے ( یہ حکم اس وقت تھا جب کہ ایسی لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا جن کے ساتھ صحبت ومباشرت جائز تھی
اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات غزووں میں شریک ہوئی ہوں میں ( میدان جنگ میں ) ان ( مجاہدین ) کے پیچھے ان کے ڈیروں میں رہا کرتی تھی جہاد میں ان کے لئے کھانا پکاتی زخمیوں کی مرہم پٹی اور دوا دارو کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی (مسلم )