اعلان جہاد کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی
راوی:
وعن كعب بن مالك قال : لم يكن رسول الله صلى الله عليه و سلم يريد غزوة إلا ورى بغيرها حتى كانت تلك الغزوة يعني غزوة تبوك غزاها رسول الله صلى الله عليه و سلم في حر شديد واستقبل سفرا بعيدا ومفازا وعدوا كثيرا فجلى للمسلمين أمرهم ليتأهبوا أهبة غزوهم فأخبرهم بوجهه الذي يريد . رواه البخاري
اور حضرت کعب ابن مالک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ (یعنی جہاد کرنے ) کا ارادہ کرتے تو اس کے بجائے دوسرے کا توریہ فرماتے یہاں تک کہ یہ غزوہ یعنی تبوک واقع ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سخت ترین گرمی کے زمانے میں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دور دراز کا سفر فرمایا اور بے آب وگیاہ جنگلات کو طے کیا ۔ نیز اس میں دشمنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب اس غزوے کا ارادہ فرمایا تو) اس کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان صاف صاف اعلان کیا ۔ (اور اس غزوے کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ) تاکہ وہ لوگ (جنگ کے لئے ) اچھی طرح تیار ہو جائیں اور ) اپنے سامان جہاد کو درست کر لیں ! نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ان رستوں اور مقامات کے بارے میں بھی بتا دیا تھا جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تبوک پہنچنے کے لئے ) اختیار کرنا چاہتے تھے۔" (بخاری)
تشریح :
" توریہ " کے معنی ہیں " خبر کو چھپانا بایں طور پر کہ اصل بات کو چھپایا جائے اور دوسری بات کو ظاہر کیا جائے " چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارادہ جہاد کے موقع پر یہ جنگی حکمت عملی اختیار فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس مقام پر جہاد کے لئے جانا ہوتا اس کا اعلان نہ کرتے بلکہ اسی دوسرے مقام کے بارے میں مشہور کرا دیتے کہ وہاں جہاد کے لئے جانا ہے اور حکمت عملی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے اختیار فرماتے تھے تاکہ دشمن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ کا پتہ نہ چلے اور وہ غافل رہے ! اس طرح کی حکمت عملیاں دراصل جنگ جیتنے کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہیں اور دنیا کا ہر قانون ان کو رواہ رکھتا ہے اسی لئے اسلام نے بھی " الحرب خدعتہ " (لڑائی مکر و فریب کا نام ہے ) کہہ کر جنگ میں اس طرح کے " فریب دینے کو جائز رکھا ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ توریہ بھی اگرچہ" خدعہ " کی قسم سے تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو صریح قول کے ذریعہ اختیار نہیں فرماتے تھے بلکہ بطریق تعریض وکنایہ اختیار فرماتے تھے جیسے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقام پر جہاد کے لئے جانے کا ارادہ فرماتے کہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی ارادے کا علم نہیں ہوتا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صریح الفاظ میں کسی دوسرے مقام کا نام لے کر یہ بالکل نہیں کہتے تھے کہ میں فلاں جگہ کے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں ، تا کہ جھوٹ بولنا لازم نہ آئے ۔
یہاں تک کہ یہ غزوہ الخ " حضرت کعب ابن مالک نے اس کے ذریعہ اس غزوہ یعنی عزوہ تبوک کی طرف اشارہ کیا جو ان کی ذات کے تعلق سے مشہور ومعروف تھا ، حضرت کعب ابن مالک بذات خود اس غزوہ میں شریک نہیں ہوئے تھے چنانچہ ان کا واقعہ بہت مشہور ہے جو قرآن کریم میں بھی مذکور ہے ۔
" دور دراز کا سفر فرمایا " جہاد کرنے کے لئے تبوک جانے کو دور دراز کا سفر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ تبوک جو دمشق (شام ) اور مدینہ کے درمیانی پر خیبر اور البلاد کے خطہ پر واقع ایک جگہ کا نام ہے ، مدینہ سے اس زمانہ کی مسافت کے اعتبار سے چودہ منزل اور آج کل کے حساب کے مطابق تقریبا ٤٢٥ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں جن غزوات میں بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ان میں یہ غزوہ تبوک واقع ٩ھ آخری غزوہ تھا ۔ اس غزوہ کے موقع پر صحابہ کو بڑی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں۔