مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ کفاروں کا بیان۔ ۔ حدیث 1035

مکتوب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شہنشاہ ایران کا نخوبت أمیز معاملہ اور اس پر اس کا وبال

راوی:

وعنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم بعث بكتابه إلى كسرى مع عبد الله بن حذافة السهمي فأمره أن يدفعه إلى عظيم البحرين فدفعه عظيم البحرين إلى كسرى فلما قرأ مزقه قال ابن المسيب : فدعا عليهم رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يمزقوا كل ممزق . رواه البخاري

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری کے نام اپنا نامہ مبارک عبداللہ ابن خدافہ سہمی کے ہاتھ روانہ کیا جو تقریبا اسی مضمون پر مشتمل تھا جو قیصر وغیرہ کو بھیجا گیا تھا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ اس نامہ مبارک کو بحرین کے حاکم نے اس کو کسری کے پاس پہنچا دیا جب کسری تک پہنچا دے چنانچہ عبداللہ ابن حزافہ نامہ مبارک بحرین کے حاکم کے پس لے گئے اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسری کے پاس پہنچا دیا جب کسری نے وہ نامہ مبارک پڑھا تو بجائے اس پر عمل کرنے کے اس کو پھاڑ ڈالا حدیث کے ایک راوی ابن مسیب کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری اور اس کی رعایا کے لئے یہ بددعا فرمائی کہ وہ پارہ پارہ کر دیئے جائیں بالکل پارہ پارہ (بخاری )

تشریح :
روم کی طرح فارس (ایران ) بھی قدیم ترین شہنشاہیت کا گہوارہ تھا اور ایشیاء کی ایک عظیم الشان سلطنت تھی اس وقت اس کی حدود سلطنت ایک طرف سندھ تک پھیلی ہوئی تھیں اور دوسری جانب عرق اور عرب کے اکثر حصے یمن بحرین اور عمان بھی فارس ہی کے زیر اقتدار تھے اس کی اخلاقی حالت بھی گردو پیش کے ممالک کی طرح نہایت ابتر تھی یزدان اور اہرمن نیکی اور بدی کے دو اللہ سمجھے جاتے تھے ااتش پرستی ملک کا عام مذہب تھا اس سلطنت کے شہنشاہ کا لقب خسرو ہوا کرتا تھا جس کا عربی لفظ کسری بنا لیا گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس خسرو یا کسری کے پاس نامہ مبارک بھیجا تھا اس کا نام پرویز تھا جو ہرمز ابن نوشیروان کا بیٹا تھا ۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ اس وقت ایران کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے تھے ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا لیکن چونکہ نامہ مبارک کو وقت ایران کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے ہیں ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا نامہ مبارک کو اللہ کے نام (بسم اللہ ) سے شروع کیا گیا تھا ، پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تھا اس لئے جب وہ خسرو پرویز کے سامنے پڑھا گیا تو وہ سخت غضب ناک ہوا اور کہنے لگا کہ میرے غلام کو یہ جرأت ہے کہ وہ میرے نام اس طرح خط لکھے ۔ اور پھر طیش میں آکر نامہ مبارک کو پر زے پر زے کر دیا ۔ قاصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح اس کی حکومت کے بھی پر زے پر زے ہو جائیں گے چنانچہ نامہ مبارک کے ساتھ خسرو پرویز کے اس نخوت آمیز رویہ پر سرکار عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا یہ نتیجہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ بعد طبری کی روایت کے مطابق ٣۔ جمادی الاول ٦٢٩ء کی شب میں پرویز کو اسی کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر دیا اور پھر چھ مہینے کے بعد ہی اس کا بیٹا شیرویہ بھی مر گیا اور اس طرح اس کی حکومت وسلطنت پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسا وبال پڑا اور ایسی لعنت نازل ہوئی کہ تھوڑی ہی مدت کے بعد ہزاروں برس کی اس عظیم الشان سلطنت کے پر زے اڑ گئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں