مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ آداب سفر کا بیان ۔ حدیث 1026

شیطانی اونٹ اور شیطانی گھر

راوی:

وعن سعيد بن أبي هند عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " تكون إبل للشياطين وبيوت للشياطين " . فأما إبل الشياطين فقد رأيتها : يخرج أحدكم بنجيبات معه قد أسمنها فلا يعلو بعيرا منها ويمر بأخيه قد انقطع به فلا يحمله وأما بيوت الشياطين فلم أرها كان سعيد يقول : لا أراها إلا هذه الأقفاص التي يستر الناس بالديباج . رواه أبو داود

اور حضرت سعید ابن ابوہند (تابعی ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کچھ ) اونٹ شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں اور (کچھ ) گھر شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ جو اونٹ شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں ان کو میں نے دیکھا ہے (جیسے ) تم سے کوئی شخص عمدہ قسم کی اونٹنیوں کو لے کر نکلتا ہے جن کو اس نے خوب فربہ کیا لیکن ان میں سے کسی اونٹ پر سوار نہیں ہوتا ہے اور جب (کسی سفر میں ) اپنے اس مسلمان بھائی کے ساتھ راستہ طے کرتا ہے جو (اپنی کمزوری اور سواری سے محرومی کی وجہ سے ) چلتے چلتے تھک گیا ہے تو اس کو (بھی ) اس اونٹ پر سوار نہیں کرتا ۔ اور جو گھر شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں ان کو میں نے نہیں دیکھا ہے ۔" حدیث کے راوی حضرت سعید کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ وہ گھر (جو شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں ) وہ پنجرے ہیں جن کو لوگ ریشمی کپڑوں (کے پردوں سے ) ڈھانکتے ہیں ۔" (ابو داؤد )

تشریح :
جو اونٹ شیطانوں کے ہو جاتے ہیں الخ " کا حاصل یہ ہے کہ اونٹوں کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ان کو سواری اور بار برداری کے مصرف میں لایا جائے اور اللہ نے اس کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے ذریعہ اپنی بھی سفری ضروریات پوری کی جائیں اور دوسرے ضرورت مند مسلمانوں کو بھی ان سے نفع پہنچایا جائے ، لیکن اگر کوئی شخص ان کو خوب موٹا تازہ کر کے محض اظہار تفاخر اور نام آوری کے لئے رکھتا ہے اور ان کو اپنے سفر میں اپنی یا اپنے کسی ضرورت مند مسلمان بھائی کے رفع احتیاج کے لئے نہیں بلکہ " کو تل " رکھتا ہے تو اس طرح اس نے اس اونٹ کو نہ تو اپنے مصرف میں لا کر اور نہ کسی تھکے ہوئے مسلمان بھائی کی راحت کا ذریعہ بنا کر گویا شیطان کی اطاعت کی اور شیطان کو خوش کیا اس لئے وہ اونٹ گویا شیطان کے لئے ہو گیا ، اس سے معلوم ہوا کہ کو تل گھوڑا ممنوع ہے اور گویا وہ شیطانی گھوڑا ہوتا ہے ۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کا جزء (فاما ابل الشیطین) (چنانچہ جو اونٹ شیطانوں کے لئے ہوتے ہیں الخ ) دراصل حدیث کے راوی یعنی حضرت ابوہریرہ کے اپنے الفاظ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل حدیث صرف ماقبل کی مجمل عبارت ہے یعنی حدیث (یکون ابل للشیاطین وبیوت للشیاطین) اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ (جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوا ) اصل حدیث فلم ارھا (ان کو میں نے نہیں دیکھا ہے ) تک ہے ! اسی قول کو ملا علی قاری نے بھی پسند کیا ہے ۔
شیطانی گھروں سے مراد یا تو عماریاں اور ہودج ہیں جن کو بعض لوگ ریشمی کپڑوں سے آراستہ پراستہ رکھتے ہیں یا وہ گھر ہیں جن کو ریشمی کپڑوں کی دیوار گیریوں کے ساتھ مزین کیا گیا ہو ، ظاہر ہے جہاں خود ان ہودجوں یا گھروں کی ممانعت مقصود نہیں ہے بلکہ ان کو ریشمی کپڑوں کے ساتھ سجانے اور مزین کرنے کے سبب سے ان کی برائی بیان کی گئی ہے جس میں نہ صرف مال کی بربادی اور اسراف ہی ہے بلکہ اظہار تفاخر اور ریا بھی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں