مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ آداب سفر کا بیان ۔ حدیث 1025

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حق شناسی

راوی:

وعن بريدة قال : بينما رسول الله صلى الله عليه و سلم يمشي إذا جاءه رجل معه حمار فقال : يا رسول الله اركب وتأخر الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا أنت أحق بصدر دابتك إلا أن تجعله لي " . قال : جعلته لك فركب . رواه الترمذي وأبو داود

اور حضرت بریدہ کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر میں ) پیدل راستہ طے کر رہے تھے کہ اس دوران اچانک ایک شخص اپنے گدھے کے ساتھ ، یعنی اس پر سوار ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ !(میرے گدھے پر ) سوار ہو جایئے ۔" اور (یہ کہہ کر ) وہ شخص گدھے کی پشت پر ) پیچھے سرک گیا (تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بیٹھ جائیں ) لیکن آپ نے فرمایا کہ میں آگے نہیں بیٹھوں گا کیونکہ (اپنی سواری کے ) جانور پر آگے بیٹھنے کے تم ہی مستحق ہوا الاّ یہ کہ تم مجھے اس کا حقدار بنا دو (یعنی اگرچہ اس شخص کا پیچھے سرکنا اسی لئے تھا ۔ کہ گویا اس نے آپ کو آگے بیٹھے رہنے کا حقدار بنا دیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال احتیاط کے پیش نظر اس پر واضح کیا کہ میں تمہاری سواری پر آگے اسی وقت بیٹھ سکتا ہوں جب کہ تم صریح الفاظ میں مجھ سے آگے بیٹھنے کے لئے کہو ، اس شخص نے کہا کہ (میں صراحت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ ) آپ کو میں نے اس کا حقدار بنا دیا ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (اس کے آگے بیٹھ گئے ۔" (ترمذی ، ابوداؤد)

تشریح :
اس حدیث سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احساس انصاف وحق شناسی ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اس شخص کی سواری پر آگے بیٹھنے سے انکار کر دیا جب تک کہ اس نے صراحت کے ساتھ اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کے اپنے حق کو آپ کی طرف منتقل نہ کر دیا وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف تواضع و انکسار بھی پورے کمال کے ساتھ ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے پیچھے بیٹھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا اور اس پر راضی ہوئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں