سواری کے جانوروں کے بارے میں ایک حکم
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا تتخذوا ظهور دوابكم منابر فإن الله تعالى إنما سخرها لكم لتبلغكم إلى بلد لم تكونوا بالغيه إلا بشق الأنفس وجعل لكم الأرض فعليها فاقضوا حاجاتكم " . رواه أبو داود
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جانوروں کی پشت کو منبر نہ بناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لئے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ ) جانی مشقت ومحنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے ) یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے لہٰذا ان کو ایذاء پہنچانا روا نہیں ہے ) اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے (اسی غرض سے ) پیدا کیا ہے لہٰذا تم اس پر کاموں اور اپنی حاجتوں کو پورا کرو ۔" (ابو داؤد)
تشریح :
جانوروں کی پشت کو منبر نہ بناؤ " کا مطلب یہ ہے کہ باتیں کرنے کے لئے جانور کی پشت پر سوار ہو کے نہ کھڑے رہو بلکہ اگر کسی سے بات کرنی ہے تو اس کی پشت پر سے اتر کر اپنی حاجت پوری کرو اور پھر اس پر سوار ہو ، لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ سواری کے علاوہ جانور کی اور کوئی حاجت یا اس کے ساتھ کوئی اور صحیح غرض متعلق نہ ہو ، ہاں اگر اس جانور سے کوئی اور صحیح غرض متعلق ہو گو اس میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ کہ یہ ثابت ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا تھا ۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس لئے پیدا کیا کہ تم اس پر اٹھو بیٹھو اور کھڑے ہو اور اس کے علاوہ اپنی ضرورتیں پوری کرو ، لہٰذا اپنے کام زمین پر ہی کرو سواری کے جانور کی پشت پر سوائے سوار ہونے کے کہ وہ تمہیں منزل مقصود پر پہنچا دے اور کوئی کام نہ کرو ۔