سفر میں کم سے کم تین آمیوں کا ساتھ ہونا چاہئے
راوی:
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " الراكب شيطان والراكبان شيطانان والثلاثة ركب " . رواه مالك والترمذي وأبو داود والنسائي
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " ایک سوار ایک شیطان ہے ، دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار ، سوار ہیں ۔ " ( مالک ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی )
تشریح :
تین سوار سوار ہیں کا مطلب یہ ہے کہ تین سوار اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو سوار کہا جائے کیونکہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ گویا اس طرح ایک یا دو سوار کو سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ سفر میں کم سے کم تین ساتھیوں کا ہونا ضروری ہے اس لئے کہ تنہا سفر کرنے میں ایک نقصان تو یہ ہے کہ جماعت فوت ہو جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اگر اس کو کوئی ضرورت وحادثہ پیش آجائے تو اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا اور وہ ہر معاملے میں درماندہ رہتا ہے ، اسی طرح اگر محض دو ساتھی سفر کریں تو اس صورت میں اگر خدانخواستہ یہ بات پیش آجائے کہ ایک ساتھی بیمار ہو جائے یا مر جائے تو دوسرا ساتھی سخت مضطر اور پریشان ہو گا اور یہ چیز شیطان کی خوشی کا باعث ہے یا یہ مراد ہے کہ اگر کوئی شخص تنہا سفر کرے یا سفر کے دو ہی ساتھی ہوں تو شیطان کو بڑی آسانی کے ساتھ یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان کو گمراہ کرے اور برائی میں مبتلا کرے ، اسی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے ایک سوار یا دو سوار کو شیطان فرما دیا گیا ہے ۔
بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں کم سے کم تین آدمی ہونے چاہئیں تاکہ اول تو وہ جماعت سے نماز ادا کریں اور دوسرے یہ کہ اگر ایک شخص کو دوران سفر کسی ضرورت سے کہیں جانا پڑے تو دو باقی رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی دلبستگی واطمینان کا ذریعہ بنیں اور اگر اس شخص کے آنے میں تاخیر ہو جائے تو ان دونوں میں سے ایک اس کی خبر لینے اور تاخیر کا سبب جاننے کے لئے چلا جائے اور دوسرا سامان وغیرہ کی دیکھ بھال کرتا رہے ۔