پھلدار درخت کی بیع کا مسئلہ
راوی:
عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع ومن ابتاع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترط المبتاع " . رواه مسلم وروى البخاري المعنى الأول وحده
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی شخص نے تابیر کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے الاّ یہ کہ خریدنے والا پھل مشروط کر دے اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا وہ مال بیچنے والے کا ہے ( مسلم و بخاری) نے اس حدیث کا صرف پہلا جزء یعنی (من ابتاع نخلا ) نقل کیا ہے۔
تشریح :
تابیر کی صورت یہ ہے کہ کھجور کے نر درخت کا پھول کھجور کے مادہ درخت میں رکھدیتے ہیں عربوں کا اعتقاد تھا کہ اس وجہ سے زیادہ پھل پیدا کرتا ہے۔
حدیث بالا میں ایسے ہی درخت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تابیر کیا ہوا درخت خریدے اور خریداری کے وقت اس درخت پر پھل لگے ہوئے ہوں تو وہ بیچنے والے کے ہوتے ہیں ہاں اگر خریدار خریداری کرتے وقت یہ طے کرے کہ میں اس درخت کو اس کے پھل سمیت خریدتا ہوں تو پھر وہ پھل خریدار کے ہوں گے ۔ حنفیہ کے نزدیک بغیر تابیر کئے ہوئے درخت کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن امام شافعی امام مالک امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ بغیر تابیر کئے ہوئے درخت کا پھل بیع میں شامل نہیں ہے بلکہ یہ میرے ہوں گے تو پھر اس صورت میں وہ بیچنے والے کے ہوتے ہیں۔
غلام چونکہ کسی مال کا مالک نہیں ہوتا اس لئے حدیث میں اس کی طرف مال کی ملکیت کی نسبت ظاہر کے اعتبار سے ہے کہ اگر بیع کے وقت اس کے ہاتھ میں کوئی مال ہو تو وہ مال بیچنے والے کا ہے ہاں اگر خریدار اس مشرو ط طریقہ پر اسے خریدے کہ غلام کی خریداری میں یہ مال بھی شامل ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے تو اس صورت میں وہ مال خریدار کا ہوگا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غلام کی بیع کے وقت وہ کپڑے جو اس کے جسم پر ہوں بیع میں داخل نہیں ہوتے الاّ یہ کہ خریدار ان کپڑوں سے بیع کو مشروط کر دے حنفیہ کے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ کپڑے بیع میں داخل ہوتے ہیں ۔ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ صرف اسی قدر بیع میں داخل ہوتے ہیں جو سترپوشی کے لئے کافی ہوں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ حدیث کے ظاہر مفہوم کے مطابق اس کا کوئی بھی سامان اور سامان یعنی کپڑے وغیرہ کا کوئی بھی حصہ بیع میں داخل نہیں ہوتا۔