جہاد کے لئے جمعرات کے دن نکلنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ تھا
راوی:
عن كعب بن مالك : أن النبي صلى الله عليه و سلم خرج يوم الخميس في غزوة تبوك وكان يحب أن يخرج يوم الخميس . رواه البخاري
حضرت کعب ابن مالک راوی ہیں کہ نبی کریم غزوہ تبوک کے لئے جمعرات کے دن روانہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پسند فرماتے تھے کہ جہاد کے سفر کی ابتداء جمعرات کے دن سے کریں ۔ " ( بخاری)
تشریح :
" تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے درمیانی راستہ پر خیبر اور العلاء کے خط پر واقع ہے ، یہ پہلے شام کے علاقہ میں تھا حجاز کی حدود میں ہے ۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ ٤٦٥میل ہے ، اس وقت یہ جگہ مدینہ سے ایک مہینہ کی مسافت کے بقدر تھی ،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٩ھ میں اس جگہ پر فوج لے کر گئے تھے اسی کو غزوہ تبوک کہا جاتا ہے ، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ تھا ۔
ابوداؤد نے حضرت کعب ابن مالک کی جو روایت نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ " ایسا کم ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے اپنے سفر کی ابتداء جمعرات کے دن سے نہ کرتے ہوں ۔ "
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے سفر میں جمعرات ہی کے دن روانہ ہونا کیوں پسند کرتے تھے ؟ اس میں کئی احتمال ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ بندوں کے نیک اعمال جمعرات ہی کے دن سے اللہ تعالیٰ تک اٹھائے جاتے ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہا کرتے تھے کہ جہاد کا عمل آج ہی اللہ تعالیٰ تک اٹھایا جائے کہ وہ افضل اعمال ہے اور دوسرے یہ کہ " خمیس " لشکر کو بھی کہتے ہیں ( اور جمعرات کا دن بھی یوم الخمیس کہلاتا ہے ) لہٰذا آپ جمعرات کے دن سفر جہاد کی ابتداء کر کے یہ فال نیک لیتے تھے کہ جس لشکر کے مقابلہ پر جا رہے ہیں اس پر فتح حاصل ہوگی ۔
بہر کیف اس سلسلے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جو چیز ہے وہ یہی ہے کہ جب جہاد کے لئے سفر اختیار کیا جائے تو جمعرات کے دن روانگی عمل میں لائی جائے لیکن اصل مدار استخارہ اور تفویض اور توکل پر ہے ۔
یہ واضح رہے کہ سلف( صحابہ ) سے یہ قطعًا منقول نہیں ہے کہ وہ سفر کی ابتداء کرنے کے سلسلے میں نجوم کا اتباع کرتے ہوں اور روانگی سفر کے لئے وہی ساعت اختیار کرتے ہوں جو حوتش کا حساب ظاہر کرتا ہو ! حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہا کہ تم سفر میں فلاں روز جانا ، فلاں روز روانہ نہ ہونا ، یہ سن کر حضرت علی نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر اس وقت میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں ( اتنی غلط اور خلاف اسلام بات کہنے پر ) تمہاری گردن اڑا دیتا ، ہم حضرت ابوالقاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (برابر) حاضر رہا کرتے تھے ، ہم نے تو کبھی بھی آپ کی مجلس میں یہ ذکر ہوتے نہیں سنا کہ فلاں روز سفر کرنا چاہئے اور فلاں روز سفر نہ کرنا چاہئے ۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے " قمر در عقرب " اور " محاق " کے سلسلے میں جو کچھ روایت کیا جاتا ہے وہ پایہ صحت کو پہنچا ہوا نہیں ہے ۔