آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے
راوی:
وعن عائشة قالت : كان النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمغرم والمأثم اللهم إني أعوذ بك من عذاب النار وفتنة النار وفتنة القبر وعذاب القبر ومن شر فتنة الغنى ومن شر فتنة الفقر ومن شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد ونق قلبي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب "
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکسل والہرم والمغرم والمأثم اللہم انی اعوذ بک من عذاب النار وفتنۃ النار وفتنۃ القبر وعذاب القبر ومن شر فتنۃ الغنی ومن شر فتنۃ الفقر ومن شر فتنۃ المسیح الدجال اللہم اغسل خطایای بماء الثلج والبرد ونق قلبی کما ینقی الثوب الابیض من الدنس وباعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، طاعت میں سستی سے، بڑھاپے کے سبب سے مخبوط الحو اس اور اعضاء کے ناکارہ ہونے سے تاوان یا قرض سے اور گناہ سے ، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور عذاب کے فتنہ سے ۔ قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے، دولت کے فتنہ سے اور برائی سے، فقر کے فتنہ کی برائی سے اور کانے دجال کے فتنہ سے اے اللہ ۔ برف اور اولے کے پانی سے میرے گناہ دھو دے (یعنی طرح طرح مغفرتوں کے ذریعہ مجھے گناہوں سے پاک کر دے جس طرح برف اور اولے کا پانی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور میرے دل کو برے اخلاق اور برے خیالات سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا پانی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح بعد پیدا کر دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان بعد پیدا کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح : " پناہ مانگتاہوں آگ کے عذاب سے " کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہو جو دوزخی ہیں یا کفار۔
اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ " عذاب الٰہی " میں صرف کفار ہی مبتلا ہوں گے چنانچہ موحدین جو اپنی بد عملیوں کی سزا آخرت میں پائیں گے اسے عذاب نہیں کہا جاتا بلکہ وہ " تادیب" ہے یعنی اگر ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور ایسا عذاب کے لئے نہیں بلکہ تادیب یعنی ان کے گناہوں کو دھونے اور ختم کرنے کے لئے ہوگا۔
" آگ کے فتنہ " سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آگ اور قبر کے عذاب کا باعث بنتی ہیں یعنی گناہ و معصیت۔
" قبر کے فتنہ " سے مراد ہے منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیتے وقت حو اس باختہ ہونا۔
" قبر کے عذاب " سے مراد ہے، فرشتوں کا، ان لوگوں کو لوہے کے گرزوں سے مارنا اور ان کا عذاب میں مبتلا ہونا۔ جو منکر نکیر کے سوالات کا جواب نہ دے سکیں گے۔ " قبر" سے مراد ہے عالم برزخ چاہے وہ قبر ہو یا کچھ اور ہو دولت کے فتنہ سے مراد ہے تکبر و سرکشی کرنا مال و زر حرام ذرائع سے حاصل کرنا اور ان کو گناہ کی جگہ خرچ کرنا اور مال و جاہ پر بے جا فخر کرنا اسی طرح فخر کے فتنے سے مراد ہے۔ دولت مندوں پر حسد کرنا ، ان کے مال و زر کی ہوس اور طمع رکھنا، اس چیز پر راضی نہ ہونا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے یعنی فقر اور اسی قسم کی وہ تمام چیزیں جو صبر و توکل اور قناعت کے منافی ہیں۔
اب آخر میں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لیجئے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان تمام چیزوں سے پناہ مانگنا اس کے معنی میں نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان چیزوں میں مبتلا تھے، یا ان میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم تھے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دائمی طور پر ان تمام چیزوں سے امن و حفاظت میں رکھا تھا بلکہ ان چیزوں سے پناہ مانگنا تعلیم امت کے طور پر تھا کہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں اور ان سے بچیں۔