مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 93

حضرت خباب کا واقعہ

راوی:

وعن أبي أمامة قال : جلسنا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فذكرنا ورققنا فبكى سعد بن أبي وقاص فأكثر البكاء فقال : يا ليتني مت . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " يا سعد أعندي تتمنى الموت ؟ " فردد ذلك ثلاث مرات ثم قال : " يا سعد إن كنت خلقت للجنة فما طال عمرك وحسن من عملك فهو خير لك " . رواه أحمد

حضرت حارثہ بن مضرب (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ (وہ بیمار تھے) اور انہوں نے اپنے بدن پر سات جگہ داغ لگوائے تھے چنانچہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ " اگر میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نہ سنا ہوتا " تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے" تو میں ضرور موت کی آرزو کرتا۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ اپنے تئیں دیکھا ہے میں ایک درہم کا مالک بھی نہیں تھا اور اب یہ حال ہے کہ میرے گھر کے کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں' حضرت حارثہ فرماتے ہیں پھر حضرت خباب کے پاس ان کا کفن لایا گیا ( جو بہت اعلیٰ اور نفیس تھا) انہوں نے جب اسے دیکھا تو رونے لگے اور فرمایا کہ اگرچہ یہ کفن جائز ہے (لیکن) حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (پورا) کفن نہیں ملا صرف ایک سیاہ اور سفید دھاری والی چادر تھی اور (وہ بھی اتنی چھوٹی تھی) جب ان کے سر پر اوڑھائی جاتی تو پیر کھل جاتے تھے اور جب ان کے پیر پر ڈالی جاتی تھی تو سر کھل جاتا تھا۔ آخر کار اس چادر سے سر کو ڈھانک دیا گیا اور پیروں کو " اذخر" سے چھپایا گیا " اس روایت کو احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی نے ثم اتی بکفنہ سے آخر تک الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔

تشریح
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں پہلے اسلام لانے والوں میں شمار کئے جاتے تھے یہی وہ مرد حق آگاہ ہیں جنہوں کفار کے طلم و ستم کے اس خشمگین ماحول میں سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے انتہا تکلیف و سختیوں اور ظلم ستم میں مبتلا کئے گئے حضرت خباب بدر اور دوسرے جہادوں میں شریک ہوئے ہیں اور ٤٣ھ میں واصل بحق ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
" بدن پر داغ لگوانے" اس زمانہ میں بہت سے امراض میں ایک معروف علاج تھا۔ ایک موقع پر اس سے منع فرمایا گیا ہے مگر بعض علماء نے وضاحت کی ہے کہ یہ ممانعت اس لئے فرمائی گئی تھی کہ اس طریقہ علاج کو اختیار کرنے والے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اس سے شفا ہوتی ہے لہٰذا اگر یہ صورت نہ ہو بلکہ اعتقاد یہ ہو کہ یہ طریقہ علاج تو صرف ایک ظاہر سبب کے درجہ میں ہے شفا دینے والا اللہ ہی ہے تو پھر اس طریقہ علاج کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یا یہ کہا جائے گا کہ یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ فی الواقع اس طریقہ علاج کی ضرورت و حاجت نہ ہو۔
حضرت خباب کی طرف سے آرزوئے موت یا تو اس لئے تھی کہ وہ اس مرض کی شدت سے کہ جس کے لئے انہوں نے داغ لگوائے تھے بہت زیادہ بے قرار و بےتاب تھے یا پھر اس کی وجہ ان کی تونگر اور مالداری تھی کہ ان کا یہ احساس تھا کہ مال و زر یہ افراط و بہتات کہیں میرے پائے استقامت میں کوئی لغزش پیدا نہ کر دے جس کی وجہ سے میں آخرت کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤں اور یہی وجہ زیادہ صحیح ہے کیونکہ ان کے یہ الفاظ ولقد رایتنی الخ اس پر دلالت کرتے ہیں۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدالمطلب کے صاحبزادے اور آنحضر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے، جنگ احد میں آپ نے شہادت پائی اور سیدالشہدا کے لقب سے یاد فرمائے گئے ۔
" اذخر" وہاں کی ایک گھاس کا نام ہے جو خوشبودار ہوتی ہے۔ یہ گھاس چھت کے تختوں پر بچھائی جاتی ہے اور دوسری بہت سی ضروریات میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر کرنے والا مفلس و تنگ دست، شکر کرنے والے مالدار سے افضل ہے کیونکہ حضرت خباب جیسے جلیل القدر صحابی نے اپنے حال پر کہ انہیں مالداری و تونگری حاصل تھی اور ظاہر ہے کہ ان کے شاکر ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں تھا۔ تاسف کیا۔

یہ حدیث شیئر کریں