مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان ۔ حدیث 911

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہنے والے بندہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت

راوی:

وعن ثوبان عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن العبد ليلتمس مرضاة الله فلا يزال بذلك فيقول الله عز و جل لجبريل : إن فلانا عبدي يتلمس أن يرضيني ألا وإن رحمتي عليه فيقول جبريل : رحمة الله على فلان ويقولها حملة العرش ويقولها من حولهم حتى يقولها أهل السماوات السبع ثم تهبط له إلى الأرض " . رواه أحمد

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو نیک بندہ طاعات کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو تلاش کرتا ہے اور پھر ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میرا فلاں بندہ میری رضا و خوشنودی کی تلاش میں ہے لہٰذ آگاہ رہو اس پر میری رحمت کاملہ ہے ، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کہتے ہیں کہ فلاں شخص پر اللہ کی رحمت ہو، یہی بات عرش کو اٹھانے والے فرشتے بھی کہتے ہیں ، پھر یہی بات وہ فرشتے کہتے ہیں جو ان سب کے گرد ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس بات کو ساتوں آسمان کے فرشتے کہتے ہیں، چنانچہ پھر اس شخص کے لئے زمین پر رحمت نازل فرمائی جاتی ہے۔ (احمد)

تشریح
اس شخص کے لئے زمین پر رحمت نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کو اپنا دوست اور پسندیدہ بناتا ہے اور روئے زمین پر اس کے لئے قبولیت عام کی فضا پیدا فرما دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا والے اس کو عزیز رکھتے ہیں اور ان کے قلوب میں اس کے لئے محبت و پیار اور عظمت و احترام کے پر خلوص جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ حدیث مفہوم و معنی کے اعتبار سے اس ارشاد گرامی کے مماثل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آگاہ فرماتا ہے کہ میں اپنے فلاں بندہ کو دوست رکھتا ہوں تم بھی اسے دوست رکھو چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس بندہ کو دوست رکھتے ہیں اوور پھر وہ آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فلاں بندہ کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم سب بھی اس کو دوست رکھو پس آسمان والے اس کو دوست رکھتے ہیں پھر اس بندہ کے لئے روئے زمین پر قبولیت عام کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی یبندہ کو اپنا دشمن رکھتا ہے اور پھر وہ آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو دشمن رکھتا ہے لہٰذا تم سب بھی اسے دشمن رکھو پس اسمان والے اس کو دشمن رکھتے ہیں پھر اس کے لئے روئے زمین پر عام دشمنی کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے دشمن رکھتے ہیں)
اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھئے تو واضح ہو جائے گا کہ اولیاء اللہ کی عام شہرت و قبولیت اور عوام کے قلوب میں ان کے لئے بے پناہ محبت وعقیدت کا واحد سبب یہ ہوتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کو دوست رکھتا ہے اور پھر روئے زمین پر ان کے لئے عام قبولیت و محبت کی فضا پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں تمام لوگ ان کو دوست و عزیز رکھتے ہیں۔ ہاں جو لوگ مکر و فریب کے راستوں سے اپنا مال و زر خرچ کرے عوام کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں وہ اس زمرہ سے خرج ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کا اعتبار نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں