گناہ کی زیادتی قلب کو زنگ آلود کردیتی ہے
راوی:
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن المؤمن إذا أذنب كانت نكتة سوداء في قلبه فإن تاب واستغفر صقل قلبه وإن زاد زادت حتى تعلو قلبه فذلكم الران الذي ذكر الله تعالى ( كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون )
رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہو جاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے پس یہ ران یعنی زنگ ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ۔ آیت (کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون)۔ یوں ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر یہ اس چیز یعنی گناہ کا زنگ ہے جو وہ کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے دلوں پر خیر و بھلائی بالکل باقی نہیں رہی ۔ اس روایت کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں گناہ میں زیادتی ہوتی جاتی ہے توں توں وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے قلب پر حاوی ہو جاتا ہے اور قلب کے نور کو ڈھانپ لیتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مومن دل کی بینائی سے محروم ہو جاتا ہے چنانچہ نہ تو نفع دینے والے علوم اور نفع دینے والے نیک اعمال ہی کی کوئی اہمیت اس کی نظروں میں باقی رہتی ہے اور نہ فائدہ مند عقل وحکمت کی باتوں کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہے اس طرح وہ شفقت و رحمت کے حیات آفرین وصف سے خالی ہو جاتا ہے کہ نہ اپنے اوپر رحم کرتا ہے اور نہ دوسروں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتا ہے اور آخر کار اس کے قلب میں ظلم وجہل اور شر و فتنہ کی تاریکی اپنا تسلط جما لیتی ہے جس کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ گناہ پر اس کی جرات بڑھ جاتی ہے اور معصیت آمیز زندگی ہی اس پر چھا جاتی ہے ۔