مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان ۔ حدیث 843

تسبیح ، تحمید ، تہلیل اور تکبیر کا ثواب

راوی:

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من سبح الله مائة بالغداة ومائة بالعشي كان كمن حج مائة حجة ومن حمد الله مائة بالغداة ومائة بالعشي كان كمن حمل على مائة فرس في سبيل الله ومن هلل الله مائة بالغداة ومائة بالعشي كان كمن أعتق مائة رقبة من ولد إسماعيل ومن كبر الله مائة بالغداة ومائة بالعشي لم يأت في ذلك اليوم أحد بأكثر مما أتى به إلا من قال مثل ذلك أو زاد على ما قال . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث غريب

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے جد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں سبحان اللہ کہے تو وہ از روئے ثواب اس شخص کی مانند ہے جس نے سو نفل حج کئے ہوں جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں الحمدللہ کہے تو اس شخص کی مانند ہے جس نے سو آدمیوں کو اللہ کی راہ میں سو گھوڑوں پر سوار کرایا ہو جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں اللہ اکبر کہے تو اس دن یعنی قیامت کے دن کوئی شخص اس ثواب سے زائد ثواب لے کر نہیں آئے گا جو وہ لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند یعنی اللہ اکبر مذکورہ تعداد میں کہا ہو گا تو یہ شخص درجہ ثواب کے اعتبار سے اس کے برابر ہوگا یا وہ شخص جس نے اس سے زائد کہا ہوگا (تو یہ اس سے بھی افضل ہوگا) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تشریح
اس شخص کی مانند ہے جس نے سو حج کئے ہوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسان وسہل ذکر بشرطیکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کی کیفیت حاصل ہو ان عبادت شاقہ سے افضل ہے جس میں قلب حضور واخلاص سے محروم اور غفلت میں گرفتار ہو! لیکن یہ بھی امکان ہے کہ جس طرح کسی کمتر درجہ کے عمل کی مانند قرار دیا جاتا ہے اسی طرح سبحان اللہ کی عظمت وفضیلت کو بطور مبالغہ بیان کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص صبح شام سو سو مرتبہ تسبیح پڑھتا ہے وہ نفل حج کرنے والے کی مانند ہوتا ہے۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تسبیح سبحان اللہ پڑھنے کی چونکہ بہت زیادہ فضیلت ہے اس لئے اس کا ثواب بڑھا کر نفل حج کے اصل ثواب کے برابر کر دیا جاتا ہے۔
اللہ کی راہ میں سو گھوڑوں پر سوار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جہاد کے لئے سو گھوڑے دے ڈالے ہوں یا عاریۃ دئیے ہوں! اس بات سے گو ذکر اللہ میں مشغول رہنے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ کوئی شخص دنیا کی طرف التفات نہ کرے بلکہ وہ حضور مع اللہ کی سعادت عظمی کے حصول میں اپنی پوری کوششیں اور توجہات صرف کرے کیونکہ عبادت خواہ بدنیہ ہوں یا مالیہ یا دونوں کا مجموعہ ، سب کا مقصد اور حاصل ذکر اللہ ہے اور پھر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مطلوب بہر صورت وسیلہ سے اولیٰ ہوتا ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے سو غلام آزاد کئے ہوں۔ اس میں درحقیقت ان ذاکرین کے لئے تسلی اور ترغیب ہے جو محتاج اور کم استطاعت ہونے کی وجہ سے ان عبادت مالیہ سے عاجز ہوں جنہیں اہل ثروت اور مالدار ادا کرتے ہیں۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مراد اہل عرب ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابتی ہونے کی وجہ سے افضل واعلیٰ ہیں حدیث کے آخری جز سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ اکبر ان تمام تسبیحات میں جو حدیث میں ذکر کی گئی ہیں سب سے افضل ہے حالانکہ بہت سی صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان تسبیحات میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ ہے۔ پھر الحمدللہ پھر اللہ اکبر، پھر سبحان اللہ لہٰذا اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ اکبر ہر صبح وشام سو سو مرتبہ پڑھے گا قیامت کے دن لاالہ الا اللہ پڑھنے والے کے علاوہ کوئی شخص اس ثواب سے زیادہ ثواب لے نہیں آئے گا جو یہ شخص لائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں