مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان ۔ حدیث 842

مروجہ تسبیح کا جواز

راوی:

وہ تسبیح جو آج کل رائج ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھی بلکہ بعض لوگ تو گٹھلیوں یا سنگریزوں پر پڑھتے تھے اور بعض ڈورے میں گرہیں دیتے جاتے تھے اور اس کے ذریعہ شمار کرتے تھے لیکن یہ حدیث جس طرح گٹھلیوں اور سنگریزوں کے اوپر پڑھنے کے جواز کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان خاتون کو اس سے منع نہیں کیا اسی طرح مروجہ تسبیح کے جائز ہونے کی بھی صحیح اصل وبنیاد اور دلیل ہے کیوں یہ شمار کے سلسلہ میں پروئے ہوئے دانوں میں اور بغیر پروئے ہوئے میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح بغیر پروئے ہوئے یعنی گٹھلیوں یا سنگریزوں سے پڑھی جانے والی چیز کا شمار مقصود ہوتا تھا اسی طرح پروئے ہوئے دانوں کی تسبیح کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے اس لئے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تسبیح کی وہ شکل جو آج کل رائج ہے بدعت ہے تو اس پر اعتماد نہ کیا جائے چنانچہ مشائخ نہ صرف یہ کہ اس کو جائز کہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں یہ شیطان کے لئے کوڑا ہے۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے بارہ میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اس وقت جب کہ وہ تمام مدارج طے کر کے حالت منتہی کو پہنچ چکے تھے ان کے ہاتھوں میں تسبیح دیکھ کر کسی شخص نے اس کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جس کے ذریعہ ہم اللہ تک پہنچے ہیں اس لئے میں اسے کس طرح چھوڑ سکتا ہوں!
و اللہ اکبر مثل ذالک (اور اللہ اکبر بھی اسی طرح ہے) اس جملہ کے بارہ میں دو احتمال ہیں یا تو یہ راوی کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم نے جس طرح تسبیح یعنی سبحان اللہ عدد ماخلق الخ پوری طرح بیان کی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کو پوری طرح بیان کیا یعنی اس طرح بیان فرمایا۔ اللہ اکبر عدد ماخلق الخ مگر راوی نے یہ اختصار کے پیش نظر اللہ اکبر مثلا ذالک کہہ کر بتا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد کے کلمات کی تعلیم بھی اسی طرح فرمائی۔ یا پھر یہ کہ راوی کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی اختصار کے پیش نظر عدد ماخلق فی السماء کہنے کی بجائے مثل ذالک پر اکتفا فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ جن الفاظ یعنی عدد ماخلق الخ کے ساتھ تسبیح پڑھی جائے انہیں الفاظ کے ساتھ تکبیر بھی پڑھی جائے ۔ اس طرح بعد کے جملوں یعنی والحمدللہ مثل ذالک وغیر میں بھی یہی دونوں احتمال ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں