ذکر میں کیفیت کا اعتبار کمیت کا نہیں
راوی:
وعن جويرية أن النبي صلى الله عليه و سلم خرج من عندها بكرة حين صلى الصبح وهي في مسجدها ثم رجع بعد أن أضحى وهي جالسة قال : " ما زلت على الحال التي فارقتك عليها ؟ " قالت : نعم قال النبي صلى الله عليه و سلم : " لقد قلت بعدك أربع كلمات ثلاث مرات لو وزنت بما قلت منذ اليوم لوزنتهن : سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضاء نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته " . رواه مسلم
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں) سے منقول ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت نماز فجر کے لئے ان کے پاس سے نکلے اور وہ اپنے مصلی پر بیٹھی ہوئی تھیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاشت کے وقت واپس تشریف لائے وہ اپنی جگہ یعنی مصلی پر بدستور بیٹھی ہوئی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ جس حالت میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا اسی طرح مسلسل بیٹھی ہوئی ہو؟ یعنی صبح کے وقت سے اب تک کہ چاشت کا وقت آ گیا ہے مصلی پر بیٹھی ہوئی اسی طرح ذکر الٰہی میں مشغول ہو) انہوں نے کہا کہ جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار کلمے تین مرتبہ کہے ہیں وہ چار کلمے ایسے ہیں کہ اگر ان کو اس چیز سے تولا جائے جس کے کہنے میں تم ابتداء دن سے اب تک مشغول رہی ہو (یعنی ذکر میں تو یقینا چار کلمے اس چیز پر بھاری رہیں گے (یعنی ان چار کلموں کا ثواب اس پورے وقت ذکر الٰہی میں تمہاری مشغولیت کے ثواب سے زیادہ ہو گا۔ اور وہ چار کلمے یہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضاء نفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلماتہ۔ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور اس کی تعریف کرتا ہوں اس کی مخلوقات کی تعداد کے بقدر اور اس کی ذات کی مرضی کے موافق اور اس کے عرش کے وزن کے مطابق اور اس کے کلموں کی مقدار کے مانند ہے۔ (مسلم)
تشریح
اور اس کے کلموں کی مانند میں" کلموں سے مراد یا تو ان کی کتابیں اور ان کے صحیفے ہیں یا اس کے اسماء ہیں اسی طرح کی صفات یا اس کے اوامر بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ذکر میں کیفیت کا اعتبار ہوتا ہے کمیت کا نہیں ! یعنی وہ تسبیحات وغیرہ جن کے مضامین اعلیٰ اور بہت خوب ہوں اور جنہیں قلب کے حضور واخلاص کے ساتھ پڑھا جائے اگرچہ کم ہوں مگر ان تسبیحات کے مضامین سے افضل ہیں جو ایسی نہ ہوں اور جنہیں پڑھتے وقت حضور قلب واخلاص کی دولت میسر نہ ہو اگرچہ وہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں اسی پر قیاس کرتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے کہ غور و فکر اور حضور اخلاص کے ساتھ قرآن کی تلاوت وقرأت گرچہ ایک ہی آیت ہو، اس قرأت وتلاوت سے افضل ہے جو ان چیزوں سے خالی ہو۔ چاہے وہ بہت ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔