مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث 822

اسم اعظم کی تحقیق

راوی:

عن بريدة رضي الله عنه قال : دخلت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم المسجد عشاء فإذا رجل يقرأ ويرفع صوته فقلت : يا رسول الله أتقول : هذا مراء ؟ قال : " بل مؤمن منيب " قال : وأبو موسى الأشعري يقرأ ويرفع صوته فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم يتسمع لقراءته ثم جلس أبو موسى يدعو فقال : اللهم إني أشهدك أنك أنت الله لا إله إلا أنت أحدا صمدا لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لقد سأل الله باسمه الذي إذا سئل به أعطى وإذا دعي به أجاب " قلت : يا رسول الله أخبره بما سمعت منك ؟ قال : " نعم " فأخبرته بقول رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال لي : أنت اليوم لي أخ صديق حدثتني بحديث رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه رزين

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن، میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوا تو وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نماز میں قرآن کریم پڑھ رہا ہے اور اپنی آواز بلند کر رہا ہے میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا اس شخص کو آپ ریا کار نہیں کہیں گے؟ (یعنی کیا یہ شخص منافق نہیں کہ دکھانے سنانے کے لئے اتنے زور زور سے قرآن کریم پڑھ رہا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ بلکہ مومن جو (غفلت سے ذکر کی طرف) رجوع کر رہا ہے۔ بریدہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ (یعنی وہ شخص جن کے بارہ میں اوپر ذکر ہوا کہ وہ بآواز بلند قرآن پڑھتے تھے حضرت ابوموسیٰ تھے) بآواز بلند قرآن کریم پڑھتے رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی قرأت سنتے رہے پھر ابوموسی (یا تو تشہد میں نماز کے بعد دعا کے لئے بیٹھے) اور بارگاہ الٰہی میں یوں عرض رساں ہوئے اے الٰہی! میں تجھ کو گواہ بنا کر تیرے حق میں یہ اعتقاد و اقرار کرتا ہوں۔ کہ تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ایسا یکتا وبے نیاز ہے کہ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ اسے کسی نے جنا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نے اللہ سے اس کے نام کے ساتھ سوال کیا ایسا نام کہ جب اس کے ذریعہ سوال کیا جاتا ہے تو اللہ وہ سوال پورا کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جاتی ہے تو دعا قبول کرتا ہے ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو یہ بات سنی ہے اسے ابوموسیٰ تک پہنچا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ میں نے ابوموسیٰ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی پہنچایا تو انہوں نے کہا کہ آج کے دن سے تم میرے سچے بھائی ہو کہ تم نے رسول کریم کا یہ ارشاد مجھ تک پہنچا یا ہے۔ (رزین)

تشریح
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اسم اعطم کے تعین کے بارہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ چنانچہ بعض حضرات نے تو لفظ اللہ کو اسم اعظم کہا ہے کچھ علماء کہتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اسم اعطم ہے کچھ لوگوں نے لفظ " ہو" کو اسم اعطم کہا ہے بعض حضرات نے الحی القیوم کو بعض حضرات نے مالک الملک کو بعض حضرات نے کلمہ تو حید کو اور بعض حضرات نے اللہ الذی لا الہ الا ہو رب العرش العظیم کو اس اعظم کہا ہے ۔
حضرت امام زین العابدین کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی کہ مجھے اسم اعظم بتائے تو انہیں خواب میں دکھایا گیا کہ اسم اعظم لاالہ الا اللہ ہے ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اسم اعظم اسماء حسنی میں مخفی ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اللہم اسم اعطم ہے۔
بعض سلف سے منقول ہے کہ جس شخص نے اللہم کہا اس نے گویا اللہ سے اس کے تمام ناموں کے ذریعے (دعا مانگی اسی طرح کا قول حضرت حسن بصری سے بھی منقول ہے۔
بعض حضرات الم کو اسم اعظم قرار دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات مثلا امام جعفر صادق کہتے ہیں کہ جو شخص اسماء الٰہی میں سے کسی بھی اسم کے ساتھ اللہ کو اس طرح بطریق حضور استغراق یاد کرے کہ اس وقت اس کے باطن میں اس اسم کے علاوہ اور کچھ نہ ہو تو وہی اسم اعطم ہے اور اس کے ذریعہ مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔
حضرت ابوسلیمان درانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شیخ کامل سے پوچھا کہ اسم اعظم کون سا ہے؟ تو انہوں نے پوچھا کیا تم اپنے دل کو جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں! انہوں نے فرمایا کہ جب تم یہ دیکھو کہ تمہارا دل اللہ کی طرف متوجہ اور نرم یعنی ترساں ولرزاں ہو گیا ہے تو اس وقت اللہ سے اپنی حاجت مانگو یہی اسم اعظم ہے۔
منقول ہے کہ حضرت ابوالربیع سے کسی نے کہا کہ مجھے اسم اعظم کے بارہ میں بتائیے تو انہوں نے کہا کہ یہ لکھ لو اطع اللہ یعطیک ، یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو وہ تمہاری ہر درخواست قبول کرے گا اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی اسم اعظم ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مہربان ہوتا ہے اور قبول کرتا ہے۔
نیز فرمایا کہ عارف کا بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا کن کی طرح ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کن کہہ کر جو چاہتا ہے پیدا فرما دیتا ہے ایسے ہی بندہ کے لئے لئے بسم اللہ ہے کہ وہ جس کام کی ابتداء میں بسم اللہ کہتا ہے اس کی برکت سے وہ کام پورا ہو جاتا ہے۔
بعض محققین فرماتے ہیں کہ دعا تمام اقوال کا جامع ہے یعنی بزرگارن دین نے جن جن ناموں کو اسم اعظم کہا ہے وہ سب اس دعا میں آ جاتے ہیں۔ دعا (اللہم انی اسألک بان لک الحمد لاالہ الا انت یا حنان یا منان یا بدیع السماوات والارض یا ذالجلال والاکرم یاخیرالوارثین یا ارحم الراحمین یا سمیع الدعاء یا اللہ یا ارحم الراحمین یا عالم یا سمیع یا حلیم یا مالک الملک یا مالک یا سلام یا حق یا قدیم یا قائم یا غنی یا محیط یا حکیم یا علی یا قاہر یا رحمن یا رحیم یا سریع یا کریم یا مخفی یا معطی یا مانع یا محیی یا مقسط یا حی یا قیوم یا احمد یا حمد یا رب یا رب یا رب یا رب یا رب یا وہاب یا غفار یا قریب یا لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین انت حسبی ونعم الوکیل۔) مذکورہ بالا دعا میں جتنے اسماء ذکر کئے گئے ہیں یہ سب اسم اعظم ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں