اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور ان کی تفصیل ووضاحت
راوی:
" الباقی" ہمیشہ باقی رہنے والا
خاصیت
جو شخص اس اسم پاک کو جمعہ کی شب میں سو بار پڑھ لیا کرے اس کے تمام اعمال قبول ہوں گے اور کوئی رنج وغم اسے نہ ستائے گا۔
" الوارث" موجودات کے فنا ہو جانے کے بعد باقی رہنے والا اور تمام مخلوقات کا مالک جیسا کہ بتایا گیا۔ وارث سے مراد ہے موجودات کے فنا ہو جانے کے بعد باقی تمام املاک اپنے مالکوں کے فنا ہو جانے کے بعد اس کی طرف رجوع کریں گی، لیکن یہ مطلب وارث کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ہے ورنہ تو حقیقت میں کائنات کی ایک ایک چیز کا علی الاطلاق ازل سے ابد تک ملکیت میں بغیر کسی تبدل وتغیر کے وہی مالک ہے ۔ تمام ملک وملکوت بالشرکت غیرے اسی کے لئے ہیں اور وہی سب کا حقیقی مالک ہے چنانچہ ارباب بصائر ہمیشہ یہ نداء آیت (لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار) (گوش ہوش سے سنتے ہیں)
لہٰذا بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے مال و میراث کے فکر میں نہ رہے بلکہ یہ جانے کہ یہ سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے جانا ہے اسی لئے کہا جاتا کہ موتوا قبل ان تموتوا عارفوں کا شعار ہے
دل بریں منزل فانی چہ نہی رخت بہ بند
بندہ پر اس اسم پاک کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ان اعمال میں اپنی زندگی صرف کرے جو باقیات صالحات میں سے ہیں جیسے تعلیم وتعلم اور صدقہ جاریہ وغیرہ۔ نیز دین کے علوم معارف کو پوری سعی وکوشش کے ساتھ زیادہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرے۔ تاکہ صحیح معنی میں انبیاء کا وارث قرار پائے۔
خاصیت
جو شخص طلوع آفتاب کے وقت اس اسم پاک کو سو بار پڑھا کرے اس کو کوئی رنج وغم نہیں پہنچے گا اور جو شخص اس اسم کو بہت زیادہ پڑھتا رہے اس کے تمام کام بحسن وخوبی انجام پذیر ہوں گے۔
" الرشید" عالم کا رہنما " بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اپنے بندہ کو اللہ کا راہ دکھانا یہ ہے اور وہ اس کے نفس کو اپنی طاعت وعبادت کی راہ دکھاتا ہے اس کے قلب کو اپنی مغفرت کی راہ دکھاتا ہے اور اس کی روح کو اپنی محبت کی راہ دکھاتا ہے اور جس بندہ کا نفس سنوارنے کے لئے حق تعالیٰ اس کو راہ دکھاتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام امور میں توکل وتفویض الہام فرماتا ہے۔
منقول ہے کہ ایک دن حضرت ابراہیم بن ادہم کو بھوک لگی تو انہوں نے ایک شخص کو ایک چیز دی جو ان کے پاس موجود تھی اور اس سے کہا کہ اس کو گروی رکھ کر کھانے کا انتظام کرو، جب وہ شخص وہ چیز لے کر وہاں سے نکلا تو اچانک اس کو ایک اور شخص ملا جو ایک خچر کے ساتھ چلا آ رہا تھا اس خچر پر چالیس ہزار دینار لدے ہوئے تھے اس نے اس شخص سے حضرت ابراہیم بن ادہم کے بارہ میں پوچھا ور کہا کہ یہ چالیس ہزار دینار ابراہیم کی میراث ہیں جو ان تک ان کے والد کے مال سے پہنچی ہے میں ان کا غلام ہوں میراث کا یہ مال میں ان کی خدمت میں لایا ہوں۔ اس کے بعد وہ شخص حضرت ابراہیم کے پاس پہنچا اور چالیس ہزار دینار ان کے حوالہ کئے۔ حضرت ابراہیم نے کہا کہ اگر تم سچ کہتے ہو کہ تم میرے غلام ہو اور یہ مال بھی میرا ہی ہے تو میں تمہیں اللہ کی خوشنودی کے لئے آزاد کرتا ہوں اور یہ چالیس ہزار دینا بھی میں تمہیں بخشتا ہوں۔ بس اب تم میرے پاس سے چلے جاؤ جب وہ شخص وہاں سے چلا گیا تو ابراہیم نے کہا کہ پروردگار میں نے تو تیرے سامنے صرف روٹی کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تو نے مجھے انتی مقدار میں دنیا دے دی پس قسم تیری ذات کی اب اگر مجھے بھوک سے مار بھی ڈالے گا تو تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا۔
خاصیت
اگر کوئی شخص اپنے کسی کام کے بارہ میں کچھ طے نہ کر پا رہا ہو تو وہ عشاء کی نماز اور اپنے سونے کے درمیان اس اسم پاک کو ایک ہزار مرتبہ پڑھے گا اس کام کے بارہ میں جو صحیح اور مفید بات ہو گی اس پر ظاہر ہو جائے گی اور جو شخص اس اسم پاک پر مداومت کرے اس کے تمام امور بغیر سعی وکوشش کے انجام پذیر ہوں گے۔
" الصبور" برد بار کہ گنہگاروں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ لغت میں صبر کے معنی ہیں شکیبائی کرنا اور صبور وہ کہ گنہگاروں کو پکڑنے اور ان کو سزا دینے میں جلدی نہ کرے۔ صبور معنی ومفہوم کے اعتبار سے حلیم کے قریب ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ صبور اس بات پر مشعر ہے کہ اگرچہ فی الوقت بردباری کی لیکن آخرت میں پکڑے گا اور عذاب دے گا جب کہ حلیم بردباری کے مفہوم میں مطلق ہے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ صبور کے معنی بندہ کو اس کی مصیبت وبلاء میں صبر دینے والا لہٰذا مبارک امانت کے تحمل پر صبر دینے والا، شہوات وخواہش کی مخالفت پر صبر دینے والا اور اداء عبادت میں مشقت پر صبر دینے والا وہی حق سبحانہ وتعالیٰ ہے اس لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہر مصیبت و رنج و آفت و بلاء میں اللہ سے صبر چاہے اور اس کی نافرمانی سے دور رہے۔ نیز اس اسم پاک کا بندہ پر یہ تقاضہ ہے کہ وہ کسی کام میں سبکی اور جلدی نہ کرے بلکہ وقار وطمانیت اور تمکین اختیار کرے اور ہر رنج میں اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ طلب کرے۔ آیت (ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین یا ایہا الذین امنوا صبروا وصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون )
مشائخ میں سے ایک شخص کا یہ مقولہ کتنا ہی عارفانہ ہے ۔ جام صبر پیو اگر مارے جاؤ گے شہید اور اگر زندہ رہو گے تو سعید کہلاؤ گے۔
خاصیت
جس شخص کو رنج ومشقت ، درد وتکلیف اور کوئی مصیب پیش آئے تو یہ اسم تینتیس بار پڑھے اطمینان باطن پائے گا۔ دشمنوں کی زبان بندی وپسپائی حکام کی خوشنودی اور لوگوں کے دلوں میں مقبولیت کے لئے آدھی رات کے وقت یا دوپہر میں اس اسم پاک کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھنا بڑی خاصیت اور تاثیر رکھتا ہے۔
مشکوۃ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں حق تعالیٰ کے جو ننانوے نام منقول ہیں ان کی وضاحت ختم ہوئی ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث میں ان ناموں کے علاوہ کچھ اور نام بھی منقول ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں یہ نام بھی آتے ہیں۔
الرب۔ الاکرم۔ الاعلیٰ۔ الحافظ الخ۔ الق۔ السائر۔ الستار۔ الشاکر العادل۔ العلام۔ الغالب۔ الناظر الخ۔ الق۔ القدیر۔ القریب۔ القاہر الکفیل ۔ الکافی۔ المنیر۔ المحیط۔ الملک المولی۔ النصیر۔ احکم الحاکمین۔ ارحم الراحمین۔ احسن الخالقین۔ ذوالفضل۔ ذوالطول۔ ذوالقوۃ۔ ذوالمعارج۔ ذوالعرش ۔ رفیع الدرجات۔ قابل التوب۔ الفعال لمایرید۔ مخرج الحی من المیت اور احادیث میں یہ نام بھی آئے ہیں۔ الحنان، المنان، المغیث نیز ان کے علاوہ دیگر آسمانی کتب مثلا توریت وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کے کچھ اور نام نقل کئے جاتے ہیں۔