مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث 813

اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور ان کی تفصیل ووضاحت

راوی:

" الجلیل" بزرگ قدر۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ صفات کمال کے ذریعہ اپنے نفس کو آراستہ کر کے بزرگ مرتبہ بنے ۔
خاصیت
اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو مشک و زعفران سے لکھ کر اپنے پاس رکھے یا کھائے تو تمام لوگ اس کی تعظیم و توقیر کرنے لگیں گے۔
" الکریم" بڑا سخی اور بہت دینے والا کہ اس کا دینا نہ کبھی بند ہوتا ہے نہ اس کے خزانے خالی ہوتے ہیں۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ مخلوق اللہ کو بغیر وعدہ کے مال و زر دیتا رہے اور ان کی ہر طرح کی مدد کرتا رہے نیز برے اخلاق اور برے فعل سے پرہیز کرے۔
خاصیت
جو شخص اپنے بستر پر پہنچ کر اس اسم پاک کو اتنا پڑھے کہ پڑھتے پڑھتے سو جائے تو اس کے لئے فرشتے دعا کریں اور کہیں اکرمک اللہ اللہ تجھے بزرگ مرتبہ کرے اور تو مکرم و معزز ہو۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس اسم کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے اسی وجہ سے انہیں کرم اللہ وجہہ کہا جانے لگا۔
" الرقیب" ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بندوں کے احوال افعال جاننے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت اور ہر حال میں اللہ ہی پر نظر رکھے اس کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کرے کہ ماسوا اللہ کی طرف التفات ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جن کی نگہبانی اور دیکھ بھال پر مقرر فرمایا ہے ان کی نگہبانی اور دیکھ بھال میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ تم سب راعی یعنی نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے بارہ میں محاسبہ کیا جائے گا یعنی جن کی نگہبانی اور خبر گیری پر تمہیں متعین کیا گیا ہے ان کی نگہبانی اور خبر گیری کا حال تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنا فرض کہاں تک ادا کیا؟
قشیری کہتے ہیں کہ اس طائفہ یعنی اولیاء اللہ کی جماعت کے نزدیک مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ پر دل کے ساتھ۔۔۔ اللہ کی یاد غالب ہو اور یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ میرے حال پر مطلع ہے لہٰذا وہ ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرے اور ہر دم اس کے عذاب سے ڈرے چنانچہ صاحب مراقبہ اللہ تعالیٰ کی حیاء اور اس کی ہیبت کی وجہ سے خلاف شرع باتیں اس شخص سے زیادہ چھوڑتا ہے جو عذاب الٰہی کے ڈر سے گناہ چھوڑتا ہے اور جو شخص اپنے دل کی رعایت کرتا ہے یعنی ضمیر کے صحیح تقاضے پر ہی عمل کرتا ہے تو اس کا کئی لمحہ اللہ کی یاد اور اس کی اطاعت سے خالی نہیں رہتا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل کا حساب لے گا خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل ہو یا بڑے سے بڑا۔
چنانچہ ایک ولی کے بارہ میں منقول ہے کہ ان کے انتقال کے بعد انہیں کسی نے خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور مجھ پر اپنا احسان فرمایا لییکن پورا حساب لیا یہاں تک مجھ سے اس عمل کا بھی مواخذہ کیا کہ ایک دن میں روزے سے تھا جب افطار کا وقت ہوا تو میں نے اپنے ایک دوست کی دکان سے گیہوں کا ایک دانہ اٹھا لیا اور پھر سے توڑا، معاً مجھے خیال آیا کہ گیہوں کا یہ دانہ میری ملکیت میں نہیں ہے یہ خیال آتے ہی میں نے اس دانے کو اس جگہ ڈال دیا چنانچہ اب جب کہ میرا حساب لیا گیا تو اس گیہوں کے توڑنے کی بقدر نیکی میری نیکیوں سے لی گئی۔
غور کرنے کی بات ہے کہ جس شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسے ایک دن اللہ کی بارگاہ میں اتنی چھوٹی سے چھوٹی سے باتوں کا بھی حساب دینا ہے تو کیا وہ گوارا کرے گا کہ اپنی عمر عزیز باطل چیزوں میں ضائع کرے۔ اور اپنے وقت کو تاہیوں اور غفلتوں کی نذر کر دے؟ حدیث شریف میں منقول ہے کہ تم اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے۔
خاصیت
جو شخص اپنی بیوی، اپنی اولاد، اور اپنے مال پر اس اسم پاک کو سات مرتبہ پڑھ کر ان کے چاروں طرف دم کرے وہ تمام دشمنوں اور تمام آفات سے بے خوف ہو جائے گا۔
" المجیب" عاجزوں کی دعا قبول کرنے والا اور پکارنے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اوامر ونواہی میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے اور حاجتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرے۔
خاصیت
جو شخص اس اسم پاک کو بہت پڑھے اور پھر دعا کرے تو اس کی دعا جلد قبول ہو گی اور اگر اسے لکھ کر اپنے پاس رکھے تو حق تعالیٰ کی امان میں رہے گا۔
" الواسع" ۔ وسیع علم والا اور اپنی نعمتوں سے سب کو نوازنے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ اپنے علم میں اپنی سخاوت میں اور معارف واخلاق میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرے سب ہی سے چہرہ کی بشاشت اور کشادگی کے ساتھ پیش آئے اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں فکرمند نہ رہا کرے۔
خاصیت
جو شخص اس اسم پاک کو بہت پڑھے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرے حق تعالیٰ اسے قناعت اور برکت کی دولت سے نوازے گا۔
" الحکیم" دانا اور استوار کار۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ کتاب اللہ میں مذکور صفات حمیدہ کو اپنائے اور کمال تعلق اس سے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے تمام امور میں استوار پیدا کرے نیز اسے چاہئے کہ وہ سفاہت یعنی بے وقوفی سے پرہیز کرے اور کوئی کام بغیر باعث حقانی اور بغیر داعیہ ربانی نہ کرے تاکہ اس کی ذات اسم "حکیم" کا پر تو ثابت ہو۔
حضرت ذوالنون مصری کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا جب میں نے سنا کہ مغرب کے علاقہ میں ایک شخص اپنے علم وحکمت کی بناء پر بہت مشہور ومعروف ہیں تو میں ان کی زیارت کے لئے ان کے پاس پہنچا میں چالیس دن تک ان کے دروزے پر پڑا رہا اور میں یہ دیکھتا تھا کہ وہ نماز کے وقت مسجد میں آتے اور حیران و پریشان پھرنے لگتے اور میری طرف قطعاً کوئی توجہ والتفات نہ فرماتے اس صورت حال سے میں تنگ آ گیا تو ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ جناب ! چالیس دن سے میں یہاں پڑا ہوں لیکن نہ تو آپ میری طرف التفات کرتے ہیں اور نہ مجھ سے کلام کرتے ہیں؟ آپ مجھے کوئی نصیحت کیجئے اور کچھ باحکمت باتیں بتائیے کہ اسے میں یاد رکھو۔ انہوں نے کہا کہ تم اس پر عمل کرو گے یا نہیں؟ میں نے کہا ہاں اگر اللہ نے توفیق دی تو ضرور عمل کروں گا۔ پھر انہوں نے حکمت وموعظت سے بھرپور یہ بات مجھ سے کہی کہ دنیا کو دوست نہ رکھو ، فقر کو غنیمت جانو، بلا کو نعمت سمجھو ، منع یعنی نہ ملنے کو عطا جانو، غیر اللہ کے ساتھ نہ انس اختیار کرو اور نہ ان کی صحبت میں اپنے کو مشغول رکھو، خواری کو عزت سمجھو، موت کو حقیقی حیات جانو، طاعت وعبادت کو اپنی عزت کا ذریعہ سمجھو اور توکل کو اپنی معاش قرار دو۔
از سینہ محوکن ہمہ نام ونشان غیر
الا کسے کہ می دہد از وے نشان ترا
خاصیت
اگر کسی شخص کو اپنے کسی کام میں پریشانی ہو اور وہ پورا نہ ہو رہا ہو تو اسے چاہئے کہ اس اسم پاک پر مداومت اور ہمیشگی اختیار کرے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا کام پورا ہو جائے گا۔
" الودود" فرمانبردار بندوں کو دوست رکھنے والا یا اولیاء اللہ کے قلوب میں محبوب۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ مخلوق اللہ کے لئے وہی چیز پسند کرے گا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ان پر اپنی بساط بھر احسان کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
بندوں کو اللہ تعالیٰ کا دوست رکھنا یہ ہے کہ کہ وہ بندوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔ ان کی تعریف کرتا ہے ان کو خیر و بھلائی پہنچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بندوں کا دوست رکھنا یہ ہے کہ وہ اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور اپنے قلوب میں اس کی ہیبت وبڑائی رکھتے ہیں ۔ حدیث میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے دوستوں میں بڑا دوست وہ ہے جو غیر عطا کے لئے میری عبادت کرتا ہے یعنی وہ عطا وبخشش کی امید سے نہیں بلکہ صرف میری رضا اور خوشنودی کی خاطر ہی عبادت کرتا ہے۔
خاصیت
اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا ہو جائے اور تعلقات انتہائی کشیدہ ہو جائیں تو اس اسم پاک کو کسی کھانے کی چیز پر ایک ہزار ایک مرتبہ پڑھ کر دونوں میں سے اس کو کھلا دیا جائے جس کی طرف سے ناچاق پیدا ہوتی ہو انشاء اللہ ان دونوں کے درمیان اتفاق والفت کی فضا بحال ہو جائے گی۔
" المجید" بزرگ وشریف ذات۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب وہی ہے جو اسم مبارک العظیم کے بارہ میں ذکر کیا جا چکا ہے۔
خاصیت
جس شخص کو آبلہ پا، یا باد فرنگ (آتشک) یا برص اور یا جذم کا مرض لاحق ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ایام بیض میں روزے رکھے اور افطار کے وقت اس اسم پاک کو بہت پڑھے اور دم کر کے پی لے اللہ نے چاہا تو یقینا شفا پائے گا اور جس شخص کو اپنے ہم عصروں اور ہم جنسوں میں عزت واحترام کی نظر سے نہ دیکھا جاتا ہو تو وہ ہر صبح اس اسم پاک کو ننانوے مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے اسے عزت واحترم حاصل ہوگا۔
" الباعث" ۔ مردوں کی قبروں سے اٹھانے والا اور زندہ کرنے والا غافلوں کا دل خواب غفلت سے بیدار کرنے والا ۔ اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ جاہل نفسوں کو تعلیم دے کر اور نصیحت کرے انہیں دنیا سے بے رغبتی کا احساس دلا کر اور آخرت کی نعمتوں کا راغب بنا کر جہالت وغفلت کے خواب سے انہیں بیدار کرے اور ان کے مردہ قلوب کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ اپنے نفس سے اس کی ابتدا کرے اس کے بعد دوسروں کی طرف متوجہ ہو۔
خاصیت
اگر کوئی یہ چاہے کہ اس کے قلب کو حقیقی زندگی ملے تو سوتے وقت اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اس اسم پاک کو ایک سو ایک بار پڑھے ۔ حق تعالیٰ اس کے دل کی مردنی کو دور کرے گا اور اسے حیات بخش کر انوار کا مسکن بنائے گا۔
" الشہید" حاضر اور ظاہر و باطن پر مطلع ۔ قشیری کہتے ہیں کہ اہل معرفت اللہ سے اس کی ذات کے علاوہ اور کسی مونس کی خواہش نہیں کرتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ صرف اسی ذات پر خوش اور مطمئن رہتے ہیں کیونکہ صرف اللہ ہی ان کے تمام احوال پر نظر رکھتا ہے اور وہی ان کے تمام امور وافعال کو جانتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ آیت (اولم یکف بربک انہ علی کل چیز شہید)۔ کیا تمہارا پروردگار تمہارے لئے اس بات میں کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر مطلع ہے ۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ اس بات کا دھیان رکھے کہ اس کا پروردگار اس کو کسی ایسی جگہ نہ دیکھے جو اس کے لئے پروردگار کی طرف سے ممنوع ہے یعنی برائی کی جگہ اور اس کو کسی بھی ایسی جگہ سے غیر موجود نہ دیکھے جہاں اس کو موجود رہنے کا اس نے حکم دیا ہے (یعنی بھلائی کی جگہ) اور اس یقین کی بناء پر کہ اللہ تعالیٰ میرے حال کو مجھ سے اچھی طرح جانتا ہے اور وہ میری حالت کو بخوبی دیکھتا ہے، غیر اللہ کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرنے اور غیر اللہ کی طرف بنظر امید رغبت ومیلان رکھنے سے باز رہے نیز بندہ پر اس اسم کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ صرف سچائی کا گواہ بنے اور سچائی ہی کی رعایت کرے۔
خاصیت
اگر کسی شخص کا لڑکا نافرمان ہو یا اس کی لڑکی غیر صالح ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ہر روز صبح کے وقت اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے اور اس کا منہ آسمان کی طرف اٹھوا کر یا شہید اکیس بار پڑھے حق تعالیٰ اسے فرمانبردار اور صالح بنائے گا۔
" الحق" شہنشاہی کے ساتھ قائم اور خدائی کے لائق۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ جب اس نے جان لیا کہ اسی کی ذات حق ہے تو اب وہ اس کے مقابلہ میں مخلوق کی یاد اور مخلوق کی طلب بھول جائے ۔ نیز اس اسم کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام اقوال وافعال اور احوال میں حق بات اور حق چیز ہی کو اپنے اوپر لازم کرے۔
خاصیت
اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو گئی تو ایک کاغذ کے چوروں کونوں پر اس اسم پاک کو لکھے اور کاغذ کے بیچ میں اس چیز کا نام لکھے اور پھر آدھی رات کے وقت اس کاغذ کو ہتھیلی پر رکھ کر اور آسمان کی طرف نظر کر کے حق تعالیٰ سے اس اسم پاک کی برکت اور اس کے وسیلہ کے ذریعہ اس چیز کے حصول کی دعا کرے۔ انشاء اللہ یا وہ چیز جوں کی توں مل جائے گی یا اس کا کچھ حصہ حاصل ہو جائے گا اور اگر کوئی قیدی آدھی رات کے وقت ننگے سر ہو کر اس اسم پاک کو ایک سو آٹھ مرتبہ پڑھے تو حق تعالیٰ اسے رہائی نصیب کرے گا۔
" الوکیل" کا رساز۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (وکفی باللہ وکیلا) (یعنی کا رساز ہونے میں اللہ کفایت کرتا ہے) اور آیت (وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین) اگر تم مومن ہو تو اپنا ہر کام اللہ ہی کی طرف سونپو آیت (ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ) (جو شخص اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے) اور آیت (وتوکل علی الحی الذی لایموت) (یعنی ایسے زندہ پر بھروسہ اور اعتماد کرو جو غالب اور مہربان ہے۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ ضعیف اور لاچار لوگوں کا مدد گار ومعاون بنے اور ان کے کام کاج کرتا رہے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اس طور پر سعی و کوشش کرے کہ گویا وہ ان کا وکیل ہے۔
خاصیت
اگر بجلی گرنے کا خوف ہو یا پانی اور آگ سے کسی نقصان کا خطرہ ہو تو اس اسم پاک کا ورد کیا جائے تو انشاء اللہ امان ملے گی اور اگر کوئی شخص اس اسم پاک کو کسی خوف وخطر کی جگہ بہت پڑے تو وہ بے خوف وبے خطر ہوگا۔
" القوی ۔ المتین" قوت والا اور تمام امور میں استوار۔
ان سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ خواہشات نفسانی پر غالب اور قوی ہو دین کے معاملہ میں سخت وچست رہے اور شرعی احکام کو نفاذ کرنے اور پھیلانے میں کسی سستی اور کمزوری کو راہ نہ دے۔
خاصیت
اگر کسی کا دشمن قوی ہو اور وہ اس کے دفاوع میں عاجز اور لاچار ہو تو وہ تھوڑا سا آٹا گوندھے اور اس کی ایک ہزار ایک سو گولیاں بنا لے۔ پھر ایک ایک گولی اٹھاتا جائے اور یا قوی پڑھتا جائے اور اس گولی کو بہ نیت دفاع دشمن مرغ کے آگے ڈالتا رہے حق تعالیٰ اس کے دشمن کو مغلوب ومقہور کر دے گا اور اگر اس اسم پاک کو جمعہ کی شب میں بہت زیادہ پڑھا جائے تو نسیان کا مرض جاتا رہے گا اگر کسی بچہ کا دودھ چھٹایا گیا ہو اور وہ بچہ اس کی وجہ سے صبر و قرار نہ پاتا ہو تو اس اسم پاک کو لکھ کر اس بچہ کو پلا دے اسے صبر وقرار آ جائے گا ، اسی طرح اگر کسی دودھ والی کے دودھ میں کمی ہو تو اس اسم پاک کو لکھ کر اس کو پلا دیا جائے اس کے دودھ میں فراوانی آ جائے گی اور اگر کوئی شخص ملک وحکومت کے کسی منصب یا کام پانے کی خواہش رکھتا ہو تو وہ اس کو اتوار کے روز اول ساعت میں اپنے مقصد کی نیت سے اس اسم المتین کو تین سو ساٹھ بار پڑھے ۔ انشاء اللہ اس کو وہ منصب حاصل ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں