ذاکر کی فضیلت
راوی:
وعن أبي سعيد : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم سئل : أي العباد أفضل وأرفع درجة عند الله يوم القيامة ؟ قال : " الذاكرون الله كثيرا والذاكرات " قيل : يا رسول الله ومن الغازي في سبيل الله ؟ قال : " لو ضرب بسيفه في الكفار والمشركين حتى ينكسر ويختضب دما فإن الذاكر لله أفضل منه درجة " . رواه أحمد والترمذي وقال الترمذي : هذا حديث حسن غريب
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا بندہ بہتر ہے (یعنی بہت زیادہ ثواب پاتا ہے) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند تر درجہ کا مالک ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ جہاد کرنے والوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور بلند مرتبہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص کفار اور مشرکین پر اپنی تلوار مارے یہاں تک کہ وہ تلوار ٹوٹ جائے اور (تلوار یا خود مجاہد) خون سے رنگین ہو جائے (یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ وہ شہید ہو جائے ) تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا شخص باعتبار درجہ کے اس شخص سے بہتر ہے۔ (احمد، ترمذی) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جہاد میں زخمی ہونے والا تو الگ رہا اگر جہاد اس حد تک پہنچ جائے کہ مجاہد خون میں شرا بور ہو جائے تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والا ہی افضل ہو گا۔