مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 79

دنیاوی تکلیف ونقصان کی وجہ سے موت کی آرزو کرنے کی ممانعت

راوی:

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه فإن كان لابد فاعلا فليقل : اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " تم میں سے کوئی شخص (جسمانی و مالی) ضرر و تکلیف کی وجہ سے کہ جو اسے پہنچے موت کی آرزو نہ کرے اور اگر اس قسم کی آرزو ضروری ہی ہے تو پھر یہ دعا مانگے دعا (اللہم احینی ما کانت الحیاۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی۔ اے اللہ! مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی (موت سے) بہتر ہو اور مجھے موت دے اس وقت دے جب کہ میرے لئے موت (زندگی سے) بہتر ہو۔"

تشریح
نووی رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا ہے کہ دینی فتنہ و فساد کے خوف سے موت کی آرزو کرنا مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت امام شافعی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہما اللہ وغیرھما کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان حضرات نے دینی فتنہ و فساد کے خوف سے موت کی آرزو کی تھی اسی طرح کے راستہ میں شہادت کی آرزو کرنی بھی مستحب ہے اس لئے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے ثابت و منقول ہے بلکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں تو یہاں تک منقول ہے کہ انہوں نے طاعون عمو اس کے وقت موت کی آرزو کی تھی اس لئے معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اگرچہ وہ از قسم طاعون وغیرہ ہی کیوں نہ ہو مستحب ہے۔
مسلم میں یہ روایت منقول ہے کہ جس شخص نے صدق دل سے اور خلوص نیت کے ساتھ شہادت کی تمنا کی تو اسے شہادت کا ثواب دیا جاتا ہے (اگرچہ اسے شہادت حاصل نہ ہو سکے)
مدینہ میں موت کی آرزو کرنا مستحب ہے کیونکہ بخاری میں منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا مانگی تھی۔ " دعا (اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد رسولک)" اے اللہ! اپنی راہ میں مجھے شہادت نصیب فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت دے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک زندگی موت سے بہتر ہے جب تک کہ گناہ کے مقابلہ میں طاعات زیادہ ہوں اور زمانہ دینی فتنہ و فساد سے خالی ہو۔ ہاں جب صورت حال بالکل برعکس ہو۔ بایں طور کہ طاعات کے مقابلہ میں گناہ زیادہ ہوں اور زمانہ دینی فتنہ و فساد سے خالی نہ ہو تو پھر جینے سے مر جانا ہی بہتر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں