مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان ۔ حدیث 789

ادائیگی حقوق کے وقت ذکر سے غفلت نقصان دہ نہیں ہے

راوی:

وعن حنظلة بن الربيع الأسيدي قال : لقيني أبو بكر فقال : كيف أنت يا حنظلة ؟ قلت : نافق حنظلة قال : سبحان الله ما تقول ؟ قلت : نكون عند رسول الله صلى الله عليه و سلم يذكرنا بالنار والجنة كأنا رأي عين فإذا خرجنا من عند رسول الله صلى الله عليه و سلم عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا قال أبو بكر : فو الله إنا لنلقى مثل هذا فانطلقت أنا وأبو بكر حتى دخلنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : نافق حنظلة يا رسول الله قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " وما ذاك ؟ " قلت : يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة كأنا رأي عين فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الذي نفسي بيده لو تدومون على ما تكونون عندي وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم ولكن يا حنظلة ساعة وساعة " ثلاث مرات . رواه مسلم

حضرت حنظہ بن ربیع اسیدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ کہو حنظلہ! تمہارا کیا حال ہے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ وعظ و نصیحت فرماتے ہیں اس پر تمہاری استقامت کیسی ہے؟ میں نے کہا کہ حنظلہ تو منافق ہو گیا (یعنی حال کے اعتبار سے ایمان کے اعتبار سے نہیں) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ حنظلہ یہ تم کیا کہتے ہو! (یعنی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ کیا بات کہہ رہے ہو اس کا مطلب تو بیان کرو) میں نے کہا کہ (اس میں تعجب کی بات نہیں حقیقت یہ ہے کہ (جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور یا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں جنت کی نعمتوں کی بشارت سناتے ہیں تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت سے جدا ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں، اپنی اولادوں، اپنی زمینوں اور اپنے باغات میں مشغول ہوتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں (یعنی اپنے دنیاوی مشاغل میں پھنس کر ان باتوں کا بہت سا حصہ بھول جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے سامنے بطور تذکیر ونصیحت فرماتے ہیں اور ہم پر وہ کیفیت باقی نہیں رہتی جو آپ کی صحبت میں ہوتی ہے) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اب جب کہ تم نے اپنی یہ حالت بیان کی ہے تو سنو کہ اللہ کی قسم ہم بھی اسی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارا بھی یہی حال ہے کہ حاضر غائب میں تفاوت ہے اس کے بعد میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں چلے یہاں تک کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور تذکیر ونصیحت جنت ودوزخ کے بارہ میں بتاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنی بیویوں، اپنی اولاد، اپنی زمینوں اور باغات میں مشغولت ہوتے ہیں تو ہم نصیحت کی بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم پر ہمیشہ وہی کیفیت طاری رہے جو میری صحبت اور حالت ذکر میں تم پر ہوتی ہے (یعنی تم ہر وقت صاف دل اور اللہ سے ڈرنے والے رہو تو یقینا فرشتے تم سے تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری راہوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظہ! یہ ایک ساعت اور وہ ایک ساعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یعنی حنظلہ ساعۃ وساعۃ ( تین مرتبہ فرمایا۔ (مسلم)

تشریح
فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی صورت میں فرشتے علانیہ یعنی سب کے سامنے تم سے مصافحہ کرتے نظر آئیں اور تم ان کو مصافحہ کرتے دیکھو۔ علانیہ کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ ویسے تو فرشتے اہل ذکر سے خفیہ طور پر مصافحہ کرتے ہی ہیں کہ جس کو دنیاوی نظریں نہیں دیکھ پاتیں۔
بچھونوں پر اور راہوں میں، سے مراد ہے " حالت فراغت اور حالت مشغولیت" مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں چاہے تم کسی کام مشغول رہتے اور چاہے فارغ ہوتے یعنی ہر وقت اور ہمیشہ فرشتے تم سے مصافحہ کرتے رہتے ۔
یہ ایک ساعت اور اور وہ ایک ساعت ہے ۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب کہ تم پر حالت حضور طاری ہوتی ہے کہ تم اپنے پروردگار کے حقوق ادا کر سکو اور ذکر و شغل میں مصروف رہ سکو اور ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب تم پر حالت غفلت کا غلبہ رہتا ہے تاکہ تم اپنے نفس اور اپنے متعلقین کے حقوق ادا کر سکو۔ لہٰذا اپنے اور اپنے متعلقین کے حقوق کی ادائیگی کے وقت ذکر و حضور سے غفلت نقصان دہ نہیں کہ اس صورت میں تم اپنے آپ کو منافق سمجھنے لگو۔ اس لئے اپنے دل سے یہ خوف نکال دو کہ تم خدانخواستہ منافق ہو گئے ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں