اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے
راوی:
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من فتح له منكم باب الدعاء فتحت له أبواب الرحمة وما سئل الله شيئا يعني أحب إليه من أن يسأل العافية " . رواه الترمذي
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میں سے جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا یعنی جس شخص کو پورے آداب و شرائط کے ساتھ بہت دعا مانگنے کی توفیق عطا کی گئی تو سمجھو کہ اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے کیونکہ اس کی دعا کے نتیجے میں کبھی تو اس کی مانگی ہوئی چیز ملتی ہے اور کبھی مانگی ہوئی چیز کے بدلہ میں اس سے شر و برائی کو دور کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں مانگی جاتی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب بات یہ ہے کہ اس سے عافیت مانگی جائے۔ (ترمذی)
تشریح
حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔
عافیت کے معنی ہیں دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں تمام آفات و مصائب تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت۔ لہٰذا عافیت ، دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے جس نے عافیت مانگی اس نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند کرتا ہے۔ (نسال اللہ العافیۃ)