مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 745

دعاؤں کا بیان

راوی:

دعا کے معنیٰ ہیں کہ " اعلیٰ ذات سے ادنیٰ چیزوں میں سے کچھ بطریق عاجزی طلب کرنا " امام نووی فرماتے ہیں کہ ہر زمانہ میں اور ہر جگہ کے علماء اس بات پر متفق رہے ہیں کہ دعا مانگنا مستحب ہے ان کی دلیل قرآن وحدیث کے ظاہری اور واضح مفہوم کے علاوہ انبیاء علیہم السلام کا فعل بھی ہے کیونکہ تمام انبیاء کرام دعا مانگا کرتے تھے۔
لیکن بعض زہاد اور اہل معارف یہ بھی کہنا ہے کہ ترک دعا (یعنی دعا نہ مانگنا) افضل ہے کیونکہ اس طرح رضاء مولیٰ اور اپنی قسمت پر اور تقدیر کے ساتھ راضی ہونے کا مکمل اظہار ہوتا ہے ۔ مولانا شاہ محمد اسحق صاحب نے ان زہاد و اہل معارف کے اس قول کے بارہ میں کہا ہے کہ یہ قول اس خاص کیفیت پر محمول ہے جو بعض وقت بعض مردان حق پر طاری ہوتی ہے اور جس میں رضاء بقضاء ہی غالب ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ پیش آیا کہ جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیجئے اور اپنے پروردگار سے اپنی نجات سلامتی کے لئے درخواست کیجئے تو انہوں نے فرمایا کہ حق تعالیٰ جل شانہ میرا حال جانتا ہے مجھے کوئی درخواست کرنے اور دعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے

یہ حدیث شیئر کریں