قرآن جمع کرنے کی ابتدئ
راوی:
وعن زيد بن ثابت قال : أرسل إلي أبو بكر رضي الله عنه مقتل أهل اليمامة . فإذا عمر بن الخطاب عنده . قال أبو بكر إن عمر أتاني فقال إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى إن استحر القتل بالقراء بالمواطن فيذهب كثير من القرآن وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فقال عمر هذا والله خير فلم يزل عمر يراجعني فيه حتى شرح الله صدري لذلك ورأيت الذي رأى عمر قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك وقد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه و سلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل علي مما أمرني به من جمع القرآن قال : قلت كيف تفعلون شيئا لم يفعله النبي صلى الله عليه و سلم . قال هو والله خير فلم أزل أراجعه حتى شرح الله صدري للذي شرح الله له صدر أبي بكر وعمر . فقمت فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت من سورة التوبة آيتين مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره ( لقد جاءكم رسول من أنفسكم )
حتى خاتمة براءة . فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة . رواه البخاري
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جن دنوں اہل یمامہ کا قتل ہوا انہیں دنوں کی بات ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو میرے پاس مجھے بلانے کے لئے بھیجا میں ان کے پاس حاضر ہوا اور وہاں پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے قاریوں کی شہادت کا حادثہ یمامہ کے دن گرم ہو گیا (یعنی یمامہ کی لڑائی میں بہت سے قاری شہید ہو گئے ہیں) مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسی کثرت سے مختلف جنگوں میں قاریوں کی شہادت ہوتی رہی تو قرآن کا بہت بڑا حصہ جاتا رہے گا لہٰذا مجھے اسی میں بہتری اور مصلحت نظر آتی ہے کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دے دیں (حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اس کام کس طرح کرو گے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مسئلہ میں برابر مجھ سے گفتگو کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام (یعنی قرآن جمع کرنے) کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔ اور مجھے بھی اس میں وہی مصلحت نظر آئی جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھی ہے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان مرد ہو تمہاری نیک بختی اور سعادت کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے اور نقل کرنے کے سلسلے میں جھوٹ وغیرہ کا تم پر کوئی اتہام نہیں لگا سکتا کیونکہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کرو اور اس کو (مصحف میں) جمع کرو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! اگر پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو اٹھا کر منتقل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جاتی تو یہ خدمت میرے لئے اس خدمت سے زیادہ سخت اور بھاری نہ ہوتی جو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن جمع کرنے کی میرے سپرد فرمائی تھی۔
حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ بہر کیف میں نے یہ حکم سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا! کہ آپ وہ کام کسی طرح کریں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ اس طرح کھول دیا جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں نے قرآن کو تلاش کرنا شروع کیا اس طرح کہ میں اس کو جمع کرتا تھا۔
کھجور کی شاخوں میں سفید پتھروں میں سے اور لوگوں میں سے (یعنی حافظوں کے سینوں میں سے) یہاں تک کہ میں نے سورت توبہ کا آخری حصہ ابوخزیمہ انصاری کے پاس پایا اور یہ حصہ مجھے ان کے سوا اور کسی کے پاس سے نہیں ملا اور وہ حصہ یہ ہے آیت (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الی آخر السورۃ ، سورت برأت تک وہ صحیفے جو میں نے جمع اور نقل کئے تھے ان کی زندگی تک رہے اور پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے۔ (بخاری)
تشریح
یمامہ ایک شہر کا نام ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر وہاں بھیجا ۔ اور وہاں کے لوگوں سے خوب زوردار جنگ ہوئی جس میں مسیلمہ کذاب بھی مارا گیا مسلمانوں کے لشکر کا بھی بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ لشکر اسلام کے شہداء میں ان مقدس نفوس کی اکثریت بھی شامل تھی جن کے سینوں میں قرآن کریم محفوظ تھا۔ یعنی حفاظ اور قراء چنانچہ بعض حضرات کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس جنگ میں شہداء کی تعداد سات سو تھی اور بعضوں نے بارہ سو تک بتائی ہے۔
اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے معاملہ میں صرف ایک ہی ذریعہ یعنی حفاظ پر اعتماد اور بھروسہ کر لینا مناسب نہیں ہے بلکہ اس عظیم امانت کو حفاظ کے سینوں کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر بھی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا تذکرہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ تامل کے بعد اس رائے سے اتفاق کیا اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر اس عظیم خدمت پر معمور کیا۔
تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی لکھا کرتے تھے۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی لکھا کرتے تھے اکثر کی قید اس لئے لگائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نازل ہونے والی وحی لکھنے والے چوبیس صحابہ تھے جن میں خلفاء اربعہ بھی تھے لہٰذا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ چونکہ تم کاتب وحی ہو اس لئے قرآن کو جمع کرنے اور لکھنے کے سلسلہ میں تمہاری امانت داری اور فرض شناسی مسلم اور متیقن ہے۔