مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان ۔ حدیث 730

ہر قرأت صحیح ہے

راوی:

وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال : سمعت رجلا قرأ وسمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقرأ خلافها فجئت به النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فعرفت في وجهه الكراهية فقال : " كلاكما محسن فلا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا " . رواه البخاري

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا کہ آپ کی قرأت اس شخص کی قرأت سے مختلف تھی چنانچہ میں اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صورت حال بیان کی (کہ اس شخص کی قرأت آپ کی قرأت سے مختلف ہے) پھر میں نے محسوس کیا کہ (میرے جھگڑے اور اختلاف کی وجہ سے) آپ کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے آثار نمایاں ہیں بہر کیف آپ نے فرمایا تم دونوں صحیح اور اچھا پڑھتے ہو (دیکھو) آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (یعنی پہلی امتوں کے لوگ) وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے یعنی وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (بخاری)

تشریح
یہاں اختلاف سے مراد قرآن کے ان وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کا انکار ہے کہ جن کے مطابق قرآن کریم نازل کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی جتنی بھی قرأتیں منقول اور رائج ہیں وہ سب برحق ہیں ان میں سے کسی ایک قرأت کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر کسی شخص نے ان میں سے کسی ایک قرأت کا بھی انکار کیا تو گویا اس نے قرآن کریم ہی کا انکار کیا اس موقع پر یہ تفصیل بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بعض قرآتیں تو متواتر ہیں اور بعض آحاد متواتر وہ سات قرآتیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں