مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 717

تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کا مسئلہ

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لم يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث " . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے تین رات سے کم میں قرآن پڑھا یعنی ختم کیا اس نے قرآن کو اچھی طرح نہیں سمجھا۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

تشریح
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہاں یہ مراد ہے کہ جس شخص نے تین دن یا تین رات سے کم میں قرآن ختم کیا وہ قرآن کے ظاہری معنی تو سمجھ سکتا ہے لیکن قرآن کے حقائق ومعارف اور دقائق ونکات تک اس کو رسائی بھی نہیں ہوتی کیونکہ ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے تین دن تو بہت دور کی چیز ہے بڑی سے بڑی عمریں ناکافی ہوتی ہیں نہ یہ بلکہ اس مختصر سے عرصہ میں تو کسی ایک آیت یا ایک کلمہ کے حقائق و نکات بھی سمجھ میں نہیں آ سکتے نیز یہاں نفی سے مراد سمجھنے کی نفی ہے نہ کہ ثواب کی نفی یعنی ثواب تو ہر صورت میں ملتا ہے پھر یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں بھی تفاوت وفرق ہے بعض لوگوں کی سمجھ زیادہ پختہ ہوتی ہے وہ کم عرصہ میں بھی قرآنی حقائق ودقائق کو سمجھ لیتے ہیں جب کہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے جن کے لئے طویل عرصہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
سلف میں سے بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے چنانچہ ان لوگوں کا معمول یہ تھا کہ وہ ہمیشہ تین ہی دن میں قرآن ختم کرتے تین دن سے کم میں ختم کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے جب کہ دوسرے لوگ اس کے برخالف عمل کرتے تھے چنانچہ بعض لوگ تو ایک رات دن میں ایک بار اور بعض لوگ دو دو بار اور بعض لوگ تین تین بار قرآن ختم کرتے تھے بلکہ بعض لوگوں کے بارہ میں تو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔
ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے یا تو اس حدیث کے بارے میں یہ خیال کیا ہو کہ اس کا تعلق باعتبار اشخاص کے مختلف ہے یعنی اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو کم فہم ہوتے ہیں اور جو اگر تین دن سے کم میں قرآن ختم کریں تو اس کے ظاہر معنی بھی نہ سمجھ سکتے ہوں پھر ان کے نزدیک بات یہ ہو کہ اس حدیث میں فہم کی نفی ہے اور اس صورت میں ظاہر ہے کہ جتنی بھی کم سے کم مدت میں قرآن ختم کیا جائے ثواب ملے گا۔
بعض لوگ دو مہینے میں ایک قرآن ختم کرتے تھے بعض لوگ ہر مہینے میں بعض لوگ دس دن میں اور بعض لوگ سات دن میں ایک قرآن ختم کر دیتے تھے چنانچہ اکثر صحابہ وغیرہم کا یہی معمول تھا کہ وہ سات دن میں قرآن ختم کرتے تھے۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ قرآن سات میں ختم کر و اور اس پر زیادتی نہ کرو۔

یہ حدیث شیئر کریں