دارالحرب میں قرآن لے جانے کی ممانعت
راوی:
وعن ابن عمر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يسافر بالقرآن إلى أرض العدو . متفق عليه . وفي رواية لمسلم : " لا تسافروا بالقرآن فإني لا آمن أن يناله العدو "
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن ملک یعنی دارالحرب کی طرف قرآن لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ فرمایا قرآن لے کر سفر نہ کرو اس لئے کہ مجھے یہ اطمینان نہیں ہے کہ دشمن اسے چھین لے اور پھر وہ اس کی بے حرمتی کرے۔
تشریح
یہاں ایک بڑا لطیف اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کریم مصحف میں تو لکھا ہوا تھا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیسے فرمایا کہ قرآن لے کر سفر نہ کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اگرچہ پورا قرآن مصحف میں لکھا ہوا نہیں تھا مگر پھر بھی جو کچھ نازل ہوتا تھا اسے لوگ اپنے اپنے صحیفوں میں لکھ لیتے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ قرآن ہی کے حکم میں تھا۔ یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات بطور پیش گوئی فرمائی کہ میرے بعد جب قرآن کریم کو مکمل طور پر یک جا جمع کر کے مصحف کی شکل دے دی جائے تو اسے لوگ لے کر کفار کے ملک میں نہ جائیں کہ مبادا وہ کفار کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اس کی بے حرمتی کریں۔
بعض علماء فرماتے ہیں کہ دارالکفر میں اپنے ساتھ قرآن لے جانا مکروہ ہے نیز مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کافر کو کوئی خط وغیرہ لکھے تو اس میں آیت لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرقل کو جو مکتوب بھیجا تھا اس میں یہ آیت ( تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَا ءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِه شَيْ ً ا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ) 3۔ آل عمران : 64) لکھی تھی۔