مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 712

حضرت ابی بن کعب کی سعادت

راوی:

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لأبي بن كعب : " إن الله أمرني أن أقرأ عليك القرآن " قال : آلله سماني لك ؟ قال : " نعم " . قال : وقد ذكرت عند رب العالمين ؟ قال : " نعم " . فذرفت عيناه . وفي رواية : " إن الله أمرني أن أقرأ عليك ( لم يكن الذين كفروا )
قال : وسماني ؟ قال : " نعم " . فبكى

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام آپ کے سامنے لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ دونوں جہاں کے پروردگار کے ہاں میرا ذکر کیا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے سورت لم یکن الذین کفروا پڑھو۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ (یہ سنتے ہی حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں سب سے بڑے قاری تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اسی امتیاز وشرف کو صحابہ کے سامنے اسی طرح بیان کیا کہ اقرأکم (تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں)
حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول اللہ سمانی لک کا مطلب یہ تھا کہ کیا خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے میرا ہی نام لیا ہے اور انہوں نے یہ بات اپنی عاجزی و انکساری کے اظہار اور اپنی گمنامی کی وجہ سے کہی کہ میں اس لائق کہاں ہوں کہ پرودگار بطور خاص میرا نام لے کر آپ کو حکم دے یا پھر انہوں نے یہ بات از راہ ذوق ولذت کے کہی اور اپنی اس عظیم سعادت وشرف کا اظہار کیا کہ اللہ نے مجھے یہ عظیم مرتبہ بخشا ۔
یہ عظیم شرف سن کر حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا خوشی کی وجہ سے تھا ایسی خوشی جو حقیقی عاشق کو محبوب کے وصال اور محبوب کی کرم فرمائی کے وقت حاصل ہوتی ہے ایسی صورت میں قلب کا حزن و ملال سکون پا کر آنکھوں کی راہ سے نکل پڑتا ہے۔
خاص طور پر سورت لم یکن ہی کو پڑھنے کا حکم اس لئے ہوا کہ یہ سورت الفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر بھی ہے اور اس میں فوائد بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ اس سورت میں دین کے اصول ، وعد وعید اور اخلاص وغیرہ کے اعلیٰ مضامین مذکورہ ہیں۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہر قرآن اور اہل علم وفضل کے سامنے قرآن پڑھنا مستحب ہے اگرچہ قاری سننے والے سے افضل نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں