مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 711

قرآن کریم کی سماعت

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو على المنبر : " اقرأ علي " . قلت : أقرا عليك وعليك أنزل ؟ قال : " إني أحب أن أسمعه من غيري " . فقرأت سورة النساء حتى أتيت إلى هذه الآية ( فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا )
قال : " حسبك الآن " . فالتفت إليه فإذا عيناه تذرفان

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تھے مجھ سے فرمایا کہ میرے سامنے قرآن کریم پڑھو، میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے میں قرآن کریم پڑھوں؟ حالانکہ قرآن کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر اتارا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے سے قرآن سنوں! حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نے سورت نساء پڑھنی شروع کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا آیت (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰ ؤُلَا ءِ شَهِيْدًا) 4۔ النسآء : 41) بھلا اس (قیامت کے) دن یہود وغیرہ کا کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ بلائیں گے (یعنی ہر امت کا نبی اس دن اپنی امت کے فعال واحوال کی گواہی دے گا) اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس امت کا گواہ بنا کر بلائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بس اب رک جاؤ (کیونکہ میں اس آیت میں مستغرق ہوتا ہوں) پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدار میں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عرض کہ قرآن آپ پر اتارا گیا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم چونکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے اس لئے قرآن کریم پڑھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا حق ہے اور یہ جس طرح اتارا گیا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے پڑھ سکتے ہیں کسی اور کی کیا مجال کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قرآن کریم پڑھے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی "میں اسے پسند کرتا ہوں الخ " کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جب کہ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ میں کسی دوسرے سے قرآن سنوں اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں عارف پر حالت سکون طاری ہوتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے من عرف اللہ کل لسانہ (یعنی جس نے اللہ کو پہچانا اس کی زبان خاموش ہو گئی) اس کے برخلاف عارف کی ایک اور حالت ہوتی ہے جس کے بارہ میں کہا گیا ہے کہ من عف اللہ طال لسانہ یعنی جس نے اللہ کو پہچانا اس کی زبان کھل جاتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ بعض وقت تو عارف حالت تحیر واستغراق میں ہوتا ہے کہ سکونت اختیار کرتا ہے اور بعض وقت ہوشیار رہتا ہے کہ اس وقت وہ حقائق و معارف وغیرہ بیان کرتا ہے۔
دوسرے سے قرآن سننے میں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ قرآنی آیات کے مفہوم و معانی خوب اچھی طرح سمجھ میں آتے ہیں غور و فکر اور محویت کمال درجہ کی حاصل ہوتی ہے۔
سورت نساء کی حدیث میں مذکورہ آیت کا مقصد چونکہ قیامت کے دن کو یاد دلانا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن کی ہولناکی اور اپنی امت کے ضعف کا خیال کر کے روئے، یہ اس بات کی بیّن علامت اور دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت پر بڑے شفیق وعنایت فرماہیں۔ صلی اللہ علیہ الف الف صلوۃ کلما ذکرہ الذاکرون وکلما غفل عن ذکر الغافلون۔

یہ حدیث شیئر کریں