آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرأت
راوی:
وعن قتادة قال : سئل أنس : كيف كانت قراءة النبي صلى الله عليه و سلم فقال : كانت مدا مدا ثم قرأ : بسم الله الرحمن الرحيم يمد ببسم الله ويمد بالرحمن ويمد بالرحيم . رواه البخاري
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپ کی قرأت درازی کے ساتھ ہوتی تھی پھر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ اس طرح بسم اللہ دراز کرتے تھے (یعنی بسم اللہ الہ کے الف کو الف کے مقصود کے بقدر کھینچتے تھے، رحمن کو دراز کرتے تھے (یعنی اس کے الف کو بھی کھینچتے تھے) اور رحیم کو دراز کرتے تھے (یعنی رحیم کی یا کو اصلی یا عرضی مد کرتے تھے۔ (بخاری)
تشریح
آپ کی قرأت درازی کے ساتھ ہوتی تھی۔ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حروف مد اور لین کو بقدر معروف مد کرتے تھے جو ارباب وقوف (یعنی ارباب تجوید) کے قواعد وشرائط کے مطابق ہے۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حروف تین ہیں واؤ، الف، یا ، چنانچہ اس بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ جب ان کے بقدر ہمزہ ہو تو الف کے بقدر ان کو مد کرنا چاہئے بعض حضرات کہتے ہیں کہ دو الف سے پانچ الف تک کے بقدر مد کرنا چاہئے۔
بقدر الف سے درازگی آواز مراد ہے جب کہ کہا جائے با یا تا۔ اور اگر حروف مد کے تشدید ہو تو بقدر چار الفوں کے مد کرنا چاہئے اتفاقا جیسے دابۃ اور ان کے بعد حرف ساکن ہو تو بقدر دو الفوں کے مد کرنا چاہئے اتفاقا جیسے مار اور یعلمون اور ان کے بعد مذکورہ بالا حروف کے علاوہ حرف ہو تو مد نہیں کرنا چاہئے صرف اسی آواز پر اکتفاء کرنا چاہئے جو اس حرف کے نکلنے کے بقدر ہو جیسے ایاک یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ بسم اللہ میں جو مد ہوتے ہیں وہ سب اسی قبیل سے ہیں۔