مشغولیت قرآن کا اثر
راوی:
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يقول الرب تبارك وتعالى : من شغله القرآن عن ذكري ومسألتي أعطيته أفضل ما أعطي السائلين . وفضل كلام الله على سائر الكلام كفضل الله على خلقه " . رواه الترمذي والدارمي والبيهقي في شعب الإيمان وقال الترمذي هذا حديث حسن غريب
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ جس شخص کو قرآن کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے باز رکھتا ہے تو میں اس کو اس چیز سے بہتر عطا کرتا ہوں جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں اور تمام کلاموں کے مقابلہ میں کلام اللہ کو وہی عظمت و بزرگی حاصل ہے جو اللہ رب العزت کو اس کی تمام مخلوقات پر بزرگی اور برتی حاصل ہے (لہٰذا قرآن کریم میں مشغول رہنے والے کو دوسری چیزوں میں مشغول رہنے والوں پر بھی اسی طرح برتری و بزرگی حاصل ہوتی ہے) (ترمذی دارمی بیہقی) امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
اللہ رب العزت کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن یاد کرے، اس کے مفہوم و معنی کے سمجھنے اور جاننے اور قرآن کریم میں مذکورہ احکام و ہدایات پر عمل کرنے میں مشغول رہتا ہے اور اس کی یہ مشغولیت اس کو ان اذکار اور دعا سے جو کلام اللہ کے علاوہ باز رکھتی ہیں یعنی وہ قرآن کریم میں مشغولیت کی وجہ سے نہ تو مجھے یاد کرتا ہے اور نہ ہی مجھے سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ دیتا ہوں کیونکہ قرآن کے ساتھ درجہ کی مشغولیت اور انہماک درحقیقت اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ شخص اپنی ہر خواہش اور اپنی ہر طلب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے اس کے کلام پاک ہی سے تعلق قائم کئے ہوئے ہے لہٰذا اس کے اس عظیم جذبہ کے تحت اسے یہ اجر دیا جائے گا۔
اس موقع پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ حدیث قدسی کے شروع کے الفاظ تو یہ ہیں کہ من شغلہ القرا ان عن ذکری لہٰذا اس کا تقاضا یہ تھا کہ آخر میں بھی ذکر کرنے اور مانگنے والوں کو بیان کیا جاتا کہ میں اس چیز سے بہتر عطا کرتا ہوں جو ذکر کرنے والوں اور مانگنے والوں کو دیتا ہوں مگر یہاں صرف مانگنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ذکر کرنے والوں کا ذکر نہیں کیا گیا اس کی وجہ یہ کہ ذکر بھی درحقیقت (مانگنا) ہی ہے کیونکہ کریم کی حمد و ثناء اور اس کے ذکر کا مقصود بھی یہی ہوتا ہے کہ مجھے کچھ عطا ہو اس لئے اس ارشاد کے آخر میں بھی مانگنے والوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔
حدیث کے آخری جملہ وفضل کلام اللہ الخ کے بارہ میں یہ احتمال ہے کہ یہ جملہ قدسی ہی کا تتمہ یعنی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے وہیں یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اور یہی احتمال زیادہ صحیح ہے۔