مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 640

قل ہو اللہ کی فضیلت

راوی:

وعن عائشة : أن النبي صلى الله عليه و سلم بعث رجلا على سرية وكان يقرأ لأصحابه في صلاتهم فيختم ب ( قل هو الله أحد )
فلما رجعوا ذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فقال : " سلوه لأي شيء يصنع ذلك " فسألوه فقال لأنها صفة الرحمن وأنا أحب أن أقرأ بها فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " أخبروه أن الله يحبه "

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو امیر بنا کر ایک لشکر کے ساتھ بھیجا وہ شخص نماز میں اپنے رفقاء کی امامت کرتا تھا اور (اس کا معمول تھا کہ اپنی قرأت) قل ہو اللہ پر ختم کرتا تھا جب وہ لشکر کے لوگ واپس آئے تو انہوں نے اس کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس شخص سے دریافت کرو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ یہ اس لئے کرتا ہوں کہ اس سورت میں رحمن اللہ تعالیٰ کی صفت (وحدانیت) بیان کی گئی ہے اور میں اسے پسند کرتا ہوں کہ (اللہ کی صفت وحدانیت کے اظہار کے پیش نظر) اس سورت کو ہمیشہ پڑھتا رہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اس شخص کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے (کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو دوست رکھتا ہے) (بخاری ومسلم)

تشریح
قل ہو اللہ پر ختم کرتا تھا ، کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر نماز کی آخری رکعت میں سورت فاتحہ کے ساتھ قل ہو اللہ پڑھا کرتا تھا لیکن علامہ ابن حجر نے اس کی وضاحت یہ کی ہے کہ وہ شخص ہر رکعت میں سورت فاتحہ یا سورت فاتحہ اور دوسری سورت کے بعد قل ہو اللہ پڑھتا تھا، اس سلسلہ میں پہلی وضاحت ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں تمام علماء کے نزدیک نماز بلا کراہت ادا ہو جاتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں