مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 625

ماہر قرآن کی فضیلت

راوی:

وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا حسد إلا على اثنين : رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار ورجل آتاه الله مالا فهو ينفق منه آناء الليل وآناء النهار "

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صرف دو اشخاص کے بارہ میں حسد جائز ہے ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطا فرمائی اور وہ شخص بعض اوقات کے علاوہ دن رات کے اکثر حصہ میں اس قرآن میں مشغول رہتا ہے دوسرا وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ اس کو دن و رات کے اکثر حصہ میں خرچ کرتا ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حسد کے معنیٰ ہیں دوسرے سے نعمت کے زوال اور اپنے لئے اس نعمت کے حصول کی تمنا کرنا چنانچہ حضرت میرک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حسد کی دو قسمیں ہیں (١) حقیق۔ (٢) مجازی۔ حقیقی کا مطلب تو یہی ہے کہ کسی شخص سے نعمت کے زائل ہو جانے کی خواہش و تمنا کرنا حسد کی یہ قسم احکام قرآنی اور تعلیمات حدیث کے پیش نظر تمام علماء امت کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے مجازی کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اپنے لئے اس کے حصول کی خواہش و تمنا کرنا بغیر اس آرزو کے کہ وہ دوسرے شخص سے زائل ہو مجازی حسد کی قسم غبطہ کہلاتی ہے جسے رشک بھی کہا جاتا ہے۔ حسد مجازی یعنی غبطہ (رشک) اگر دنیاوی امور کے سلسلہ میں ہو تو مباح ہے اور اگر دینی امور کے سلسلہ میں ہو تو پھر وہ مستحب ہو گا۔ مثلا کسی شخص کو مسجد بناتا ہوا دیکھ کر یہ آرزوں و خواہش کرے کہ کاش اگر میرے پاس بھی روپیہ ہو تو میں بھی ایسی مسجد بناؤں۔ یہ رشک پسندیدہ ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے۔
بہرکیف یہاں حدیث میں حسد سے مراد غبطہ ہے مگر اس حدیث میں غبطہ کی اجازت صرف انہیں دو چیزوں میں منحصر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی نعمت ان دو نعمتوں سے بڑھ کر نہیں ہے کہ جس کے حاصل ہونے کی خواہش کی جائے چنانچہ اسی لئے مظہر فرماتے ہیں کہ کسی کے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر ویسی ہی نعمت حاصل ہو جانے کی آرزو و خواہش کرے۔ ہاں اگر وہ نعمت ایسی ہو کہ قرب الٰہی کا ذریعہ بنتی ہو جیسے تلاوت قرآن ، صدقہ و خیرات اور ان کے علاوہ دوسری نیکیاں و بھلائیاں تو ایسی نعمت کے حصول کی خواہش و آرزو پسندیدہ ہو گی۔
قرآن کی نعمت عطا فرمائی، سے مراد یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے اور یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائی چنانچہ اس کو قرآن اس طرح یاد ہو جیسا کہ ہوناچا ہئے اس طرح قرآن میں مشغول رہنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتا ہو، اس کے مفہوم و معنی کو یاد کرتا ہو اس کے علم و احکام میں غور و فکر کرتا ہو، یا پھر یہ کہ اس کے امر و نواہی پر عمل کرتا ہو یا اس کو نماز میں پڑھتا ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں